اسی بناء پر احمدی حضرات کا عقیدہ ہے کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے اس آخری صداقت کو قادیان کے ویرانے میں نمودار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو فارسی النسل ہیں۔ اس کام کے لئے منتخب فرمایا اور فرمایا کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچادوںگا۔ زور آور حملوں سے تیری تائید کروںگا اور جو دین تو لے آیا ہے۔ اسے تمام دیگر ادیان پر بذریعہ دلائل وبراہین غالب کروںگا اور اس کا غلبہ دنیا کے آخر تک قائم رکھوںگا۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۹۳، ج۲۲ ص۵، مورخہ ۳؍فروری ۱۹۳۵ئ)
اسلام سے الگ دین
یہ دین (جسے مرزاقادیانی لے کر آئے تھے) اسلام نہیں تھا۔ چنانچہ اخبار الفضل مورخہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۱۴ء میں کہاگیا ہے کہ: ’’عبداﷲ کوئیلیم نے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ایک مشن قائم کیا۔ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ مسٹر دیب نے امریکہ میں اس کی اشاعت شروع کی۔ لیکن آپ نے (مرزاقادیانی نے) مطلق ان کو ایک پائی کی مدد نہ کی۔ اس کی وجہ یہ کہ جس اسلام میں آپ پر (مرزاقادیانی پر) ایمان لانے کی شرط نہ ہو اور آپ کے سلسلہ کا ذکر نہیں۔ اسے آپ اسلام ہی نہیں سمجھتے تھے کہ ان کا (مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اسلام اور۔‘‘
اور میاں محمود احمدقادیانی (خلیفہ ثانی) نے فرمایا کہ: ’’ہندوستان سے باہر ہر ایک ملک میں ہم اپنے واعظ بھیجیں۔ مگر میں اس بات کے کہنے سے نہیں ڈرتا کہ اس تبلیغ سے ہماری غرض سلسلۂ احمدیہ کی صورت میں اسلام کی تبلیغ ہو۔میرا یہی مذہب ہے اور حضرت مسیح موعود کے پاس رہ کر اندر باہر ان سے بھی یہی سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ اسلام کی تبلیغ یہی میری تبلیغ ہے۔ پس اس اسلام کی تبلیغ کرو جو مسیح موعود لایا۔‘‘ (منصب خلافت ص۲۰،۲۱)
مسلمانوں سے اختلاف
میاں صاحب نے اپنے ایک خطبۂ جمعہ میں کہا: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا اﷲتعالیٰ کی ذات رسول کریمﷺ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، غرضیکہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۱۳ ج۱۹، مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ)