پینے کی چیز کا ختام اس کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ (ابن فارس) فراء کا قول ہے کہ خاتم اور ختام دونوں قریب المعنی ہیں۔ ’’فلان ختم علیک بابہ‘‘ کے معنی ہیں وہ شخص تجھ سے اعراض برتتا ہے اور اپنا دروازہ تجھ پر بند کر لیتا ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی اپنے دعاوی کے ابتدائی ایام میں بہ تکرار واصرار خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کرتے رہے۔ (تفصیل ذرا آگے جاکر سامنے آئے گی) لیکن بعد میں انہوں نے اپنے مسلک میں تبدیلی کی اور کہا کہ خاتم النبیین کے معنی ہیںَ وہ جس کی مہر تصدیق سے دوسرے بھی نبی بن جائیں۔ یہ مفہوم (اگر اسے مفہوم کہا جاسکے تو) قرآن کریم کی بنیادی تعلیم کے یکسر خلاف اور مقام نبوت سے لا علمی پر مبنی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ نبوت خدا کی طرف سے وہبی طور پر اس منتخب فرد کو ملتی تھی۔ جسے خدا اپنی مشیت کے مطابق اس منصب جلیلہ کے لئے مختص کر لیتا تھا۔ اس میں نہ اس فرد کی اپنی محنت وکاوش کو کسی قسم کا دخل ہوتا تھا اور نہ ہی کسی کو یہ اتھارٹی حاصل تھی کہ وہ اپنی مہر تصدیق سے دوسروں کو نبی بنادے۔ قرآن کریم میں خود نبی اکرمﷺ کے متعلق واضح الفاظ میں ہے کہ حضورﷺ کو نبی بننے سے ذرا بھی پہلے اس کا علم نہیں تھا کہ آپ اس منصب جلیلہ پر فائز کئے جانے والے ہیں۔ چہ جائیکہ حضورﷺ اپنی تصدیق سے دوسروں کو نبی بناسکتے۔ پھر حضورﷺ کی طرف سے مہر تصدیق کا ثبوت کیا؟ اگر حضورﷺ دنیا میں تشریف رکھتے اور (بفرض محال) اپنے ہاتھ سے کسی کو نبوت کا سرٹیفکیٹ عطا فرمادیتے تو اسے مہر تصدیق تسلیم کیا جاسکتا تھا۔ لیکن آج کسی کا خود ہی نبوت کا دعویٰ کر دینا اور خود ہی یہ کہہ دینا کہ مجھے یہ نبوت رسول اﷲﷺ کی مہر تصدیق سے حاصل ہوئی ہے۔ بارگاہ خداوندی اور حضور رسالت مآبﷺ میں اتنی بڑی جسارت ہے۔ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب بیباک ہو جائے تو اس کی حدود فراموشی کی کوئی انتہاء نہیں رہتی۔
عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ختم نبوت کے عقیدہ کی اہمیت کیا ہے۔ اس اہمیت کے متعدد گوشے ہیں۔ جن میں سے سردست ایک گوشہ سامنے لایا جاتا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ:
۱…
انسان کو صاحب اختیار وارادہ پیدا کیاگیا ہے۔
۲…
اگر انسان کے اختیارات کو غیر محدود چھوڑ دیا جائے تو اس سے افراد معاشرہ کے مفاد میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ خونریزی اور فساد انگیزی ہے۔