۱۲… اب ایک طبی نکتہ سنئے۔ ’’روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے۔‘‘
(آریہ دھرم ص۲۳، خزائن ج۱۰ ص۲۳)
اور یہ بھی کہ: ’’میں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۷۸، خزائن ج۲۲ ص۲۹۱)
۱۳… ’’جیسا کہ تاریخ دان جانتے ہیں کہ حضورﷺ کے گیارہ لڑکے تھے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۸۶، خزائن ج۲۳ ص۲۹۹)
گیارھواں باب … نبی فصیح۱؎ البیان ہوتا ہے
تجربہ شاہد ہے کہ وہی فلسفی، حکیم ادیب یا شاعر قبولیت عامہ حاصل کرتا ہے۔ جس کا انداز بیان بہت شستہ، برجستہ، سلیس اور بلند ہو۔ مولانا آزاد کی ’’آب حیات‘‘ سعدی کی گلستاں اور حریری کی مقامات اسی لئے مقبول ہوئیں کہ یہ کتابیں فصاحت وبلاغت کا شاہکار تھیں۔
خود اپنے زمانے میں دیکھئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ نیاز فتح پوری، ڈاکٹر احتشام حسین، ندیم قاسمی، قتیل شفائی، علامہ مشرقی، جگر مراد آبادی، جوش ملیح آبادی، مولانا ظفر علی خاں، امتیاز علی تاج وغیرہم کو دنیائے علم وادب میں اسی لئے مقام بلند حاصل ہے کہ ان کی انشاء ادب، ترنم اور برجستگی کا دلنواز امتزاج ہے۔ انسان فطرتاً حسن پسند واقع ہوا ہے۔ حسن کے مظاہر بے شمار ہیں۔ یہ فضائیں، یہ گھٹائیں، یہ دریا، یہ چشمے، یہ نغمے، یہ زمزمے، یہ رنگین پھول، یہ ملیح چہرے، یہ گنگناتے ہوئے شعر،یہ لہراتے ہوئے جملے سب حسن کے نشیمن ہیں۔ تاریخ کو دیکھئے کہ وہی خطیب ورہنما کامیاب ہوا جس کی تقریر میں آہنگ اور تحریر میں موسیقی تھی۔ جون آف آرک کی آتش بیانی نے سارے فرانس میں آگ لگادی تھی۔ ہٹلر کی بلند تقریروں نے جرمنی کو فولادی چٹان بنادیا تھا۔ چرچل کے حیات انگیز خطبوں نے جنگ عظیم (۱۹۳۹ئ،۱۹۴۵ئ) کا پانسہ پلٹ دیا تھا۔ علامہ اقبال کی اعجاز سرائی نے دس کروڑ مسلمانوں میں آزادی کی آگ بھڑکادی تھی اور قائداعظم کی آتش نوائی نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کو جنم دیا تھا۔ بات میں روانی وبرجستگی نہ ہو تو قطعاً کوئی نہیں سنتا۔ خواہ آپ قرآن کا ترجمہ ہی کیوں نہ سنارہے ہوں۔
۱؎ عربی زبان میں فصاحت وبلاغت الگ الگ وصف ہیں۔ ہم نے اس بحث میں اس امتیاز کو نظر انداز کردیا ہے۔ (مصنف)