دجال سے مباحثہ کی وجہ
ہماری حیرت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب ہم مرزاقادیانی کی تحریر ذیل پڑھتے ہیں۔ ’’حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست، میں نیک نیتی سے پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شائع کرتا رہتا ہوں۔ جب پرچۂ نور افشاں (لدھیانہ کا عیسائی اخبار) میں نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا چور تھا۔ زناکار تھا۔ تو مجھے اندیشہ پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دباؤ کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاکہ سریع الغضب مسلمانوں کے جوش فرد ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو… سومیری یہ پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عمادالدین کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے۔ یک دفعہ ان کے اشتعال فرو ہوگئے… سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب ص ب،ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰،۴۹۱)
دیکھا آپ نے کہ پادریوں سے مباحثہ کرنے میں حکمت عملی کیا تھی۔ یہی کہ وحشی مسلمانوں میں اشتعال پیدا نہ ہو اور حکومت کسی پریشانی کا شکار نہ ہو۔ اب بتائیے کہ مسیح موعود نے دجال کو کہاں اور کس طرح قتل کیا؟
احمدی بھائیو! میرا مقصد متعصبانہ تردید نہیں۔ بلکہ تحقیق حق اور اس مسئلہ کو صرف اس روشنی میں دیکھنا ہے جو خود مرزاقادیانی نے فراہم فرمائی ہے۔ میں کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ نہیں رہا۔ کوئی جعلسازی نہیں کر رہا۔ بلکہ ہر بات کو من وعن پیش کر رہا ہوں۔ بایں امید کہ اگر میں غلطی پہ ہوں تو اصلاح فرمائیے اور اگر آپ کے تصورات میں کوئی خامی ہو تو دور کر کے گلے مل جائیے۔ میرا مقصد خلیج اختلاف کو پاٹنا اور آپ سے ملنا ہے۔ میں غلط ہوں تو مجھے بلا لیجئے۔ ورنہ تشریف لے آئیے۔
اے خوش آں روز کہ آئی وبہ صد ناز آئی