اس قسم کی تحریرات پر جناب ’’خلیفۃ المسیح الثانی‘‘ نے مندرجہ ذیل تبصرہ فرمایا ہے۔ ’’مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فخریہ لکھا ہے کہ میری کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں میں نے گورنمنٹ کی تائید نہ کی ہو۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میں نے غیروں کو نہیں بلکہ احمدیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی تحریریں پڑھ کر شرم آتی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍جولائی ۱۹۳۲ئ)
’’اگر ہم دوسرے ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں تو وہاں بھی برٹش گورنمنٹ ہماری مدد کرتی ہے۔‘‘ (برکات خلافت از میاں محمود احمد قادیانی ص۶۵)
مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کی مدد سے ایسے علماء وعوام کی فہرست تیار کی جو ذہناً حکومت برطانیہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ فہرست حکومت کو بھیج کر لکھا۔ ’’قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیرخواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی ان نقشوں کو ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی۔ ایسے لوگوں کے نام مع پتہ ونشان یہ ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج پنجم ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷،۲۲۸)
ذرا یہ واقعہ بھی ملاحظہ ہو۔ ’’ایک شخص جو کچھ مدت سے ایک احمدی کے پاس رہتا تھا۔ ملازمت کے لئے ایک برطانوی افسر کے پاس گیا۔ افسر مذکور نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ فلاں احمدی کے پاس اس پر ذیل کا مکالمہ ہوا۔
صاحب: کیا تم بھی احمدی ہو؟
امیدوار: نہیں صاحب۔
صاحب: افسوس! تم اتنی دیر احمدی کے پاس رہا۔ مگر سچائی کو اختیار نہیں کیا۔ پہلے احمدی بنو پھر فلاں تاریخ کو آؤ۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍جون ۱۹۱۹ئ)
انگریز کا یہ رویہ مرزاقادیانی کی التجائے ذیل کا نتیجہ تھا۔ ’’میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اوّل درجہ کا بنادیا ہے۔ اوّل: والد مرحوم کے اثر نے۔ دوم: گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے۔ تیسرے خداتعالیٰ کے الہام نے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ محسنہ میرے مخالفوں کو نرمی سے ہدایت کرے کہ اس نظارۂ قدرت (یعنی نشانات نبوت وغیرہ) کے بعد شرم وحیا سے کام لیں اور تمام مردی بہادری سچائی کے قبول کرنے میں ہے۔‘‘
(ضمیمہ نمبر۳ تریاق القلوب ص د،ر، خزائن ج۱۵ ص۴۹۱،۴۹۵)