اپنے وطن سے محبت نہ ہو۔ کوئی ہے جو اپنے وسائل معاش اپنی ملازمتوں اپنی زمینوں یہاں تک کہ اپنے ضمیروں پر بھی دوسروں کا قبضہ دیکھنا چاہتا ہو؟ اگر کوئی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ساری کائنات میں تنہا ہے اور اس کا کہیں کوئی ہم نوا موجود نہیں۔
مرزاقادیانی کی تقریباً ایک چوتھائی تحریرات اطاعت فرنگ کے درس پہ مشتمل ہیں۔ چند اور اقوال ملاحظہ ہوں۔ ’’میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولیٰ الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں۔‘‘
(ضرورۃ الامام ص۲۳، خزائن ج۱۳ ص۴۹۳)
’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں نہ روم میں۔ نہ شام میں نہ ایران نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعاء کرتا ہوں۔‘‘
(اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰)
مرزاقادیانی نے ملکۂ انگلستان کے جشن جوبلی (جون ۱۸۹۷ئ) کے موقع پر قادیان میں ایک عظیم الشان جلسہ کیا۔ جماعت کو وفاداری کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب ڈپٹی کمشنر کے توسط سے ملکہ کو بھیجی۔ ڈپٹی کمشنر یا ملکہ نے کتاب کی رسید تک نہ بھیجی۔ تو مرزاقادیانی نے لکھا۔ ’’تحفہ قیصریہ حضرت قیصرۂ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں بطور دردیشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرافرازی کا موجب ہوگا۔ مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمۂ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیاگیا۔ لہٰذا اس حسن ظن نے جو میں حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں۔ دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ اس تحفۂ قیصریہ کی طرف جنابۂ ممدوحہ کی توجہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں۔‘‘ (ستارۂ قیصرہ ص۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۲)
تعجب ہے کہ جس فقر نے اسکندر اعظم سے کہا تھا کہ آگے سے ہٹو اور دھوپ آنے دو۔ جس نے ہارون الرشید کو جواب دیا تھا کہ اگر قرآن سیکھنا چاہتے ہو تو۔
خیزد اندر حلقۂ درسم نشیں
جس فقر نے شاہوں کی طرف نگاہ تک اٹھانا توہین نگاہ سمجھا تھا۔ آج اس فقر کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ آستان شاہی پہ ’’تبسمے ونگاہے‘‘ کی بھیک مانگ رہا ہے۔ جب مذکورہ بالا یاددہانی کے باوجود سفید فام آقاؤں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو جبریل آیا اور کہا: ’’قیصرۂ ہند کی طرف سے شکریہ گورنر جنرل کی پیش گوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۵۷)