کھولے۔ جگہ جگہ شراب خانے جاری کئے۔ ہر طرف خنزیروں کی بے حیائی اور سوروں کی بے شرمی ونجاست خوری کا منظر کیا اور تعجب یہ کہ اﷲ کا ایک رسول اس صورتحال پہ نہ صرف اظہار اطمینان کرتا ہے بلکہ اسے اسلام کے احیائے ثانی کے لئے ضروری قرار دیتا ہے۔ ’’اسلام کی دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت کے امن بخش سائے سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۶)
وہ کس قسم کا اسلام تھا جو ان بے حیا خنزیروں اور نجاست خور خوکوں کے ظل عاطفت میں پروان چڑھتا رہا؟
انبیاء کی طویل تاریخ میں مرزاقادیانی پہلے رسول ہیں۔ جنہوں نے قوم کو غلامی کا درس دیا اور غلامی بھی دجال اکبر کی انبیاء تورہے ایک طرف مجھے کسی قسم کا کوئی ایک ادیب، فلسفی، سیاسی رہنما یا عالم دکھائیے۔ جس نے غلامی پہ ناز کیا ہو۔ میرا یہ دعویٰ ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کسی قوم میں ایک بھی ایسا عالم یا ادیب پیدا نہیں ہوا اور نہ اب کرۂ ارض پہ کہیں موجود ہے جو آزادی پے غلامی کو ترجیح دیتا ہو جو لٹیروں کی سلطنت کو رحمت ایزدی سمجھتا ہو اور جو آزادی کے نام تک سے لرزاں ہو۔ کسی انگریز کی ایک تقریر کہیں پڑھی تھی۔ اپنی غیور اور وطن دوست قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
"We fight not for glory, nor for wealth, nor for Honour, but only and alone for freedom which no good man Surrenders but with his life."
(ہم حصول شان کسب دولت اور فراہمی، اعزازات کے لئے نہیں لڑتے۔ بلکہ صرف قوم ووطن کی آزادی کے لئے لڑتے ہیں اور آزای وہ نعمت عظمیٰ ہے جس سے کوئی شریف انسان اپنی زندگی میں جدا نہیں ہوسکتا)
اور دوسری طرف جب میں مرزاقادیانی کی کتابوں میں انگریز کی تعریف اور قوم کو سدا غلام رہنے کی تلقین دیکھتا ہوں تو حیرت میں کھو جاتا ہوں کہ وہ ’’انتم الاعلون‘‘ والا رب یہ کیا کر رہا ہے۔ قرآن میں ہمیں سلطنت ووراثت کا درس دیتا رہا اور پھر ایک رسول بھیج کر غلامی وذلت کا وعظ شروع کر دیا۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔ خدا بدل گیا ہے اس کی سنت بدل گئی ہے یا غلامی کا مفہوم بدل گیا ہے؟
احمدی بھائیو! کیا آپ میں سے کوئی شخص سدا غلام رہنا پسند کرے گا۔ کوئی ایسا ہے جسے