(یعنی دست شفقت) تھا۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۳۷، خزائن ج۱۷ ص۴۲۸)
اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ محکومی دنیا کی سب سے بڑی ذلت ہے اور یہ ذلت کسی قوم کی سالہا سال کی بدکاری کی سزا ہوتی ہے۔ قرآن میں باربار درج ہے کہ اﷲ کے بندے ہمیشہ زمین کے وارث اور فرمانروا رہے ہیں اور دوسری طرف بدکار وسیہ کار لوگ ذلیل ومحکوم۔ ’’ہمیشہ کی محکومی جیسی کوئی ذلت نہیں اور دائمی ذلت کے ساتھ دائمی عذاب لازم پڑا ہوا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۶، خزائن ج۱۷ ص۱۹۸)
دنیا میں ہر رسول اپنے پیروؤں کو ذمینی بادشاہت اور اخروی جنت کی بشارت سنانے آتا ہے۔ یہ آج تک نہیں ہوا کہ کسی رسول نے آزادی پہ غلامی کو ترجیح دی ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو نمرود کی غلامی کی کہیں تعلیم نہیں دی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ساری زندگی فرعون کے خلاف جہاد میں بسر ہوئی تھی۔ ہمارے حضورﷺ بارہ چھوٹی بڑی جنگوں میں بنفس نفیس شامل ہوئے تھے اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے قیصر وکسریٰ کے ایوان استبداد کو بنیادوں تک کھود ڈالا تھا۔ خود مرزاقادیانی کو بھی مسلمانوں کی محکومی کا بے حد رنج تھا۔ خطبۂ الہامیہ میں انگریز کی دراز دستیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’الاترون فتنۃ القوم الذین ہم من کل حدب ینسلون وقدجعلتم تحت اقدامہم ذکالاً من اﷲ ثم انتم لا ترجعون‘‘ کیا تم ان انگریزوں کا فتنہ نہیں دیکھتے جو ہر راستے سے بھاگے آرہے ہیں۔ ان لوگوں نے تمہیں اپنے پاؤں کے نیچے داب لیا ہے۔ یہ غلامی کتنا بڑا عذاب ہے۔ تم کیوں اﷲ کی طرف واپس نہیں آتے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۷۹،۸۰، خزائن ج۱۶ ص۱۳۳)
پھر پڑھئے: ’’ان لوگوں نے تمہیں اپنے پاؤں کے نیچے داب لیا ہے۔ یہ غلامی کتنا بڑا عذاب ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھئے: ’’ہم پر اور ہماری ذات پر فرض ہوگیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکرگذار رہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل طبع دوم ص۱۳۲، خزائن ج۳ ص۱۶۶)
اگر مسلمان ہمیشہ اس فرض کو پورا کرتے رہیں تو پھر وہ انگریز کے بوٹ کے نیچے سے کیسے نکلیںگے اور وہ غلامی کا عذاب کیسے ٹلے گا؟
تاریخ کا ادنیٰ سا طالب العلم اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ انگریز نے ہندوستان میں آکر ہم سے سولہ لاکھ مربع میل پہ پھیلی ہوئی سلطنت چھینی۔ اس کے بعد ہم سے زمینیں لیں پھر تمام سرکاری ملازمتوں اور درسگاہوں کے دروازے ہم پر بند کئے۔ ہمارے ہزارہا قضاۃ کو معزول کر کے شرعی فیصلوں سے ہمیں محروم کیا۔ خود مرزاقادیانی کی تصریح کے مطابق یہاں زناخانے