نتیجہ
تو یہ تھا اس دجال اکبر کا وہ فتنہ عظیمہ جس کے استیصال کے لئے ’’مسیح موعود‘‘ مبعوث ہوئے۔ ’’مسیح دنیا میں آکر صلیبی مذہب کی شان وشوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا اور ان لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بے شرمی اور خوکوں کی بے حیائی ونجاست خوری ہے۔ ان پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلا کر ان سب کا کام تمام کرے گا۔‘‘ (ازالہ ج۱ طبع دوم ص۸۰، خزائن ج۳ ص۱۴۲)
’’مسیح کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دجال اکبر ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۷، خزائن ج۱۱ ص۴۷)
اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اس دجال اکبر کو جس کا فتنۂ کائنات کا سب سے بڑا فتنہ تھا جس نے گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے ہندوستان میں لوٹ مار، دھوکہ، فریب، بدعہدی، سازش، عیاشی اور فتنہ کا طوفان اٹھا رکھا تھا۔ جس نے مسلمانوں کی سلطنت چھین کر ان سے رزق کے تمام وسائل بھی چھین لیتے تھے۔ جس نے درباروں اور دفتروں سے مسلمانوں کو بیک بینی و دوگوش باہر نکال دیا تھا۔ جس نے لاکھوں ہندوستانیوں کو عیسائیت کی گود میں دھکیل دیا تھا۔ جس نے ہمارے بیسیوں حرم خانوں میں داخل ہوکر بیگمات کے کپڑے تک نوچ لئے تھے اور جس میں خنزیروں کی بے شرمی اور خوکوں کی نجاست وبے حیائی پائی جاتی تھی۔ کس طرح قتل کیا۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب (یا غدر دہلی) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’’ان لوگوں (مسلمانوں) نے چوروں، قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پہ حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۲۲ حاشیہ،خزائن ج۳ ص۲۹۰)
سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر کوئی گروہ دجال اکبر کے خلاف لوائے انقلاب بلند کرتا ہے تو مسیح موعود جن کا کام ہی قتل دجال ہے۔ اسے حرامی، چور اور قزاق کیوں کہتے ہیں اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ جب ۱۸۹۱ء میں ہمارا دجال روس سے ایک جنگ میں الجھنے لگا تو مسیح موعود نے مسلمانوں سے یہ کیوں اپیل کی کہ: ’’ہر ایک سعادت مند مسلمان کو دعاء کرنی چاہئے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۰۹، خزائن ج۳ ص۳۷۳)
دجال اور مسیح موعود کا محسن؟ کیا مطلب؟
’’میرے رگ وریشہ میں شکر گذاری اس معزز گورنمنٹ کی سمائی ہوئی ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۸۲، خزائن ج۶ ص۳۷۸، گورنمنٹ کی توجہ کے لائق)
’’انگریز ایک ایسی قوم ہے جن کوخداتعالیٰ دن بدن اقبال اور دولت اور عقل اور دانش