دی کہ ۱۸۵۱ء میں جب لاء کالج کا داخلہ شروع ہوا تو کالج میں دوسو انتالیس ہندو اور صرف ایک مسلمان داخل کیاگیا۔‘‘ (ص۴۴۷)
کہاں تک سناؤں یہ ایک نہایت دردناک اور طویل کہانی ہے۔ چونکہ انگریز نے ہندوستان کی سلطنت مسلمان سے چھینی تھی۔ اسی لئے اس کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ مسلمانوں کو بھوکا مار کر ذلیل ورسوا کر دیا جائے۔ تاکہ ان میں تخت ہند واپس لینے کا جذبہ تک باقی نہ رہے اور سب بہرے، قلی اور خانسامے بن کر آزادی وحریت کے جذبات عالیہ سے یکسر خالی ہو جائیں۔ انگریز کے یہی وہ اقدامات تھے جن کا نتیجہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس انقلاب میں ہندو ومسلم سب نے یکساں حصہ لیا تھا۔
جب حکومت نے ایکٹ نمبر۱۳ مجریہ ۱۸۸۹ء کے رو سے بڑے بڑے شہروں اور چھاؤنیوں میں گورے سپاہیوں کی خاطر طوائف خانے قائم کئے تو مرزاقادیانی نے اس بداخلاقی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لکھا۔ ’’آخر یہ قبول کیاگیا کہ گوروں کا بازاری عورتوں سے ناجائز تعلق ہو۔ کاش اگر اس کی جگہ متعہ ہوتا تو لاکھوں بندگان خدا زنا سے بچ جاتے۔‘‘
(آریہ دھرم ص د، حاشیہ متعلق ص۴۳، خزائن ج۱۰ ص۷۱)
نیز مشورہ دیا۔ ’’کمانڈر انچیف افواج ہند کو یہ بھی انتظام کرنا چاہئے کہ بجائے ہندوستانی عورتوں کے یورپین عورتیں ملازم رکھی جائیں۔‘‘ مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ہندوستان کی غریب عورتوں کو دلالہ عورتوں کے ذریعہ سے اس فحش ملازمت کی ترغیب دی جاتی ہے۔ (آریہ دھرم ص ج، خزائن ج۱۰ ص۷۳) مرزاقادیانی ان اقدامات کو کیسے پسند کرسکتا تھا۔ چنانچہ آپ نے انگریزی اخلاق کی تصویر ان الفاظ میں پیش فرمائی۔
’’غیر قوموں کی تقلید نہ کرو۔ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے۔ انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی اور جیسے گدھ اور کتے مردار کھاتے ہیں۔ انہوں نے مردار پر دانت مارے وہ خدا سے بہت دور جاپڑے۔ انسانوں (حضرت مسیح وغیرہ) کی پرستش کی۔ خنزیر کھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا۔‘‘ (کشتی نوح ص۲۰، خزائن ج۱۹ ص۲۲)
یہی نہیں بلکہ انہیں دجال اور یاجوج ماجوج قرار دیتے ہوئے قوم کو ان کے فتنے سے خبردار کیا۔