۲۴… سندربن کے انگریز ہائی کمشنر نے ۱۸۶۹ء میں اعلان کیا کہ سرکاری ملازمتوں میں جہاں دیسیوں کو بھرتی کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں صرف ہندوؤن کو مقرر کیا جائے۔
۲۵… صوبہ پنجاب کے ڈائریکٹر مسٹر رنیلڈ نے اپنی رپورٹ برائے سال ۵۷،۱۸۵۶ء میں لکھا کہ پنجاب کے دیہاتی مدارس میں مدرس عموماً مسلمان ہیں۔ اس رجحان کو فوراً روکنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہو ا کہ ۱۸۹۰ء کی فہرست اساتذہ میں کسی مسلمان ٹیچر کا نام تک موجود نہیں تھا۔
۲۶… بنگال کے ایک انگریز آئی سی ایس مسٹر ڈبلیو، ڈبلیو ہنٹر اپنی کتاب ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں ایک باب بایں عنوان باندھتے ہیں۔
باب چہارم… انگریزی حکومت کے ماتحت مسلمانوں سے ناانصافیاں
’’یہ باب بے انصافیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ مثلاً مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ ہم نے ان پر باعزت زندگی کا دروازہ بند کردیا۔ ہم نے قاضیوں کی برطرفی سے ہزارہا خاندانوںکومبتلائے آفات کردیا۔ ہم نے مسلمانوں سے مذہبی فرائض پورے کرنے کے ذرائع چھین لئے۔ ہم نے ان کے مذہبی اوقاف میں بددیانتی سے کام لیتے ہوئے ان کے سب سے بڑے تعلیمی سرمائے کا غلط استعمال کیا۔ ہم نے بنگال میں قدم رکھا تو مسلمانوں کے ملازموں کی حیثیت سے لیکن اپنی فتح ونصرت کے وقت ان کی مطلق پروا نہیں کی۔ بلکہ اپنے سابق آقاؤں کو پاؤں تلے روندا۔‘‘ (ص۱۴،۲۱۳)
آگے لکھتے ہیں۔ ’’جو لوگ کل تک اس ملک کے حکمران تھے۔ آج نان جویں کے روکھے سوکھے ٹکڑوں کو بھی ترس رہے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جسے برطانوی حکومت کے ماتحت تباہ وبرباد کر دیا گیاہے۔‘‘ (ص۲۱۷،۲۱۸)
’’ہر ضلع میں کسی نہ کسی شہزادہ کی اولاد بے بام محلات اور پرازخارتالابوں کے درمیان خون جگر پیتی نظر آتی ہے۔ وہ غلیظ برآمدوں اور ٹپکتے ہوئے مکانوں میں اداس زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور روز بروز قرض کے تباہ کن گڑھوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے رنگارنگ مچھلیوں والے تالاب گندے اور سڑے جوہڑوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ بارہ دریوں کی جگہ اب اینٹوں کا ملبہ ہے۔ وہ بدنصیب خواتین جوکبھی رانیاں کہلاتی تھیں۔ ان کے زنانخانوں پر چھت تک باقی نہیں۔ ناگرخاندان کی عظمتوں کی یادگار صرف ایک نہر سی باقی ہے۔ جواب باغوں اور محلوں کی جگہ دلدلوں کے بیچ میں سے گذرتی ہے۔‘‘ (ص۲۲۲،۲۲۴)