الافواج مسٹر میکناٹن اور سولہ ہزار گورا سپاہیوں کو قتل کر دیا اور صرف ایک گورا یہ کہانی سنانے کے لئے پشاور میں زندہ واپس آیا۔ ۱۸۴۲ء میں انگریز پھر کابل پہ چڑھ دوڑے۔ پھر بازار جلائے اور اس مہم کا تمام خرچ نوابان سندھ سے زبردستی وصول کیا۔
۲۱… ۱۸۴۱ء میں انگریزوں کی توجہ سندھ کی طرف مبذول ہوئی۔ مسلسل حملوں کے بعد سارا صوبہ زیرنگین کر لیا۔ نوابوں کو جلاوطن کر دیا اور بعض حرم سراؤں میں گھس کر بیگمات سے نہ صرف زیور چھین لئے۔ بلکہ ان کے بدن سے کپڑے بھی نوچ لئے اور انہیں برہنہ کرکے بے حد رسوا کیا۔
۲۲… سید طفیل احمد منگوری اپنی تصنیف ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ آغاز میں انگریز ہندوستانی بچے چرا کر ادھر ادھر بیچ آتے تھے۔ ۱۶۶۳ء میں صرف ایک انگریز نے دوہزار بچے بیچے۔ یہ لوگ تاجر تھے اور تجارت کے لئے نہایت الٹے طریقے استعمال کرتے تھے۔ یعنی جب خام اجناس کے ذخائر منڈی میں آتے تھے تو حکم ہوتا تھا کہ دیسی سوداگر اس وقت تک منڈیوں میں قدم نہ رکھیں جب تک کمپنی کے سودے ختم نہ ہو لیں۔ نیز جب تک کمپنی کی اجناس بک نہ جائیں تمام دیگر دکاندار اپنی دکانیں بند رکھیں۔ اس طریقے سے کمپنی روپے کی چیز پیسے میں خریدتی اور دس روپے پہ فروخت کرتی تھی۔ کمپنی کا یہ قاعدہ تھا کہ جس ریاست میں نوب یا راجہ کے مرنے کے بعد جائز وارث (بیٹا) موجود نہ ہوتا اس پر خود قبضہ کر لیتی۔ اس طرح کمپنی نے تھوڑے سے عرصے میں پندرہ ریاستیں ہتھیالیں۔ ان ریاستوں کے ورثاء مرکیسے گئے۔ ہنوز ایک راز ہے۔
۲۳… انگریز کا کام صرف قتل عام اور داروگیر ہی نہ تھا بلکہ وہ تبلیغ عیسائیت پہ بھی پوری توجہ صرف کر رہا تھا۔ کمپنی کے ایک ڈائریکٹر مسٹر چارلس گرانٹ نے ۱۷۹۳ء میں ایک کتاب لکھی۔ جس میں کھلم کھلا اقرار کیاکہ لوگوں کو تعلیم دینے سے ہمارا مقصد تبلیغ عیسائیت ہے۔ ۱۸۴۶ء میں مدراس کے گورنر اور ڈائریکٹر سررشتہ تعلیم نے کمپنی کو لکھا کہ سکولوں میں انجیل پڑھائی جائے۔ جن مقامات پر عیسائی سکول موجود تھے وہاں کوئی اور سکول کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ سرچارلس تریویلین آئی سی ایس نے ۲۸؍جنوری ۱۸۵۳ء کو دارالامراء کے سامنے ہندوستان کے واقعات بیان کرتے ہوئے فخر سے کہا۔ ہماری پالیسی کے نتائج یہ ہیں کہ گورنمنٹ درسگاہوں سے بھی اتنے ہی عیسائی پیدا ہوئے جتنے مشزی درسگاہوں سے۔