۱۰… ۱۷۷۵ء میں شاید کمپنی کو کسی سودے میں خسارہ ہوا۔ اسے پورا کرنے کے لئے شاہ اودھ سے پچھتر لاکھ روپیہ کا مطالبہ کردیا اور ساتھ ہی یہ رقم وصول کرنے کے لئے فوج بھیج دی۔ اس فوج نے حرم میں داخل ہوکر بیگمات کے زیور جس وحشیانہ طریقے سے نوچے یہ ایک زہرہ گداز داستان ہے۔
۱۱… لارڈ کارنوالس (گورنر جنرل از ۱۷۸۶ء تا ۱۷۹۳ئ) نے چپکے سے میسور پر حملہ کر دیا اور بنگلور ہتھیا لیا۔ آخر نواب اور کمپنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ جس کے رو سے آدھی ریاست کمپنی کو چلی گئی اور ساتھ ہی لاٹ صاحب نے نواب صاحب سے (کہ انہوں نے مقابلہ کیوں کیا) تیس کروڑ تیس ہزار روپیہ بطور تاوان لے لیا۔
۱۲… بچے کھچے روہیلے روہیلکھنڈ میں پھر جمع ہوگئے تھے اور صاحب بہادر کے مفاد کو پھر ایک وہمی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ ۱۷۹۴ء میں سرجان شور نے انہی تباہ وبرباد کرنے کے لئے دوبارہ قدم رنجہ فرمایا اور بقدر ظرف خوں ریزی کی۔
۱۳… اسی زمانے میں شاہ اودھ (آصف الدولہ) کی وفات ہوگئی اور اس کے جائز وارث وزیر علی (اربن آصف الدولہ) نے مسند سنبھال لی۔ آصف الدولہ کا بھائی سعادت علی سرجان شور کی خدمت میں پہنچا۔ دس لاکھ نقد کا نذرانہ اور الہ آباد کا قلعہ پیش کیا۔ چنانچہ وزیر علی معزول ہوگیا اور سعادت علی شاہ اودھ بن گیا۔
۱۴… سلطان ٹیپو کی شجاعت وغیرت کی داستانیں سارے ہندوستان میں مشہور تھیں۔ یہ واحد فرمانروا تھا جو انگریز کی مکاریوں سے آشنا اور ان کے دام سے گریزاں تھا۔ جب ویلزلی ۱۷۹۸ء میں گورنر جنرل بن کر ہند میں وارد ہوئے تو انہوں نے آتے ہی ٹیپو کے استیصال کے لئے زبردست جنگی تیاری شروع کر دی۔ ٹیپو صاحب بہادر کے ارادوں سے بے خبر تھا۔ چنانچہ ایک روز اچانک اس پہ ہلہ بول دیا۔ ٹیپو نہایت بے جگری سے لڑا۔ لیکن کہاں تک آخر مدافعت میں شہید ہوگیا۔ انگریز کے نوشیروانی انصاف نے اس خاندان کو سیادت سے محروم کرنا پسند نہ کیا۔ چنانچہ سہولت کار کے لئے ریاست کے کچھ اضلاع نظام پہ فروخت کر ڈالے۔ بندرگاہیں خود سنبھال لیں اور شہید ٹیپو کے پنجسالہ بچے کو وارث سلطنت قرار دے دیا۔ لیکن پبلک کے اصرار پر ریاست کا نظم ونسق اپنے دست انصاف پسند ہی میں رکھا۔
۱۵… چونکہ تمام کالے لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ اس لئے لارڈ ویلزلی نے