ان کے بچے ذبح کر دئیے گئے اور دیہات کو آگ لگادی گئی۔‘‘ (کمپنی کی حکومت ص۱۱۴ باری) اور پھر لطف یہ کہ اس حملے کا خرچ (چالیس لاکھ روپیہ) نواب اودھ سے زبردستی وصول کیاگیا۔
۶… ہسٹینگز نے رشوتیں لینے اور سودے چکانے کے لئے نندکمار کو مقرر کر رکھا تھا۔ جب ہسٹنگز کروڑوں روپے لے چکا اور اسے افشائے راز کا خطرہ پیدا ہوگیا تو اس نے نند کمار کو کوئی بہانہ بناکر سولی پر لٹکا دیا۔
۷… ۱۷۷۹ء میں مرہٹوں پہ حملہ کر دیا۔ یہ جنگ ایک معاہدے پہ ختم ہوئی۔ لیکن جلد ہی انگریز نے اس معاہدے کی دھجیاں ہوا میں بکھیر دیں اور بلا اشتعال دوبارہ حملہ کرکے بہت کچھ کمالیا۔
۸… ریاست میسور پر حیدرعلی کی حکومت تھی۔ ۱۷۶۹ء میں انگریز نے میسور پر اچانک ہلہ بول دیا۔ جس میں سخت شکست کھائی اور جھک کر صلح کر لی ۔ اس معاہدہ کی پہلی اور بنیادی شرط یہ تھی کہ اگر ہم میں سے کسی ایک پر حملہ ہوا تو ہم ایک دوسرے کی مدد کریںگے۔ دوبرس بعد مرہٹوں نے میسور پر حملہ کر دیا۔ حیدرعلی نے انگریز کو باربار اس کا معاہدہ یاد دلایا۔ لیکن صاحب بہادر نے سنی ان سنی ایک کر دی۔
۹… بنارس کا راجہ چیت سنگھ ہرسال بائیس لاکھ روپیہ بطور خراج کمپنی کو ادا کرتا تھا۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب مؤرخ نہیں دے سکتا تھا۔ ۱۷۷۸ء میں ہسٹینگز نے راجہ سے پانچ لاکھ مزید رقم طلب کی اور دوسرے سال پھر اسی رقم کا مطالبہ ہوا۔ راجہ نے رقم تو ادا کر دی۔ لیکن ساتھ ہی لاٹ صاحب کومل کر دولاکھ روپیہ کا چڑھاوا بھی چڑھایا اور درخواست کی کہ آئندہ اس بوجھ سے مجھے معاف کیا جائے۔ کچھ عرصہ بعد لاٹ صاحب کو کسی علاقے پر چڑھائی کی ضرورت پیش آئی اس سلسلے میں راجہ چیت سنگھ کو لکھا کہ اس مقدس کام کے لئے دوہزار سپاہی تم بھی پیش کرو اور ایسا احمق سپاہی کہاں سے ملے جو دوسروںکی خاطر خون بہاتا پھرے۔ چنانچہ بڑی مشکل سے راجہ صاحب ایک ہزار سپاہی بھیج سکے۔ اس گستاخی پر لاٹ صاحب کی چتون پر بل پڑ گئے۔ فوراً راجہ صاحب پر پچاس لاکھ روپیہ جرمانہ کر دیا اور اس رقم کو وصول کرنے کے لئے فوج بھی بھیج دی۔ بے بس راجہ شاہی چھوڑ کر بھاگ نکلا اور لاٹ صاحب نے اس کے ایک خورد سال بھتیجے کو چالیس لاکھ روپیہ لے کر گدی پر بٹھا دیا اور ساتھ ہی ہدایت کی کہ یہ رقم ہر سال ہماری خدمت میں پہنچتی رہے۔