سخت احتجاج کیا تو شاہ ایران نے برطانیہ کا اشارہ پاکر تمام ممبران پارلیمان کو سولی پہ لٹکا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لارڈ کرزن نے احمد شاہ چاری (شاہ ایران، برائے نام) سے ایک سمجھوتے پہ دستخط کرالئے۔ جس کے رو سے روس کا اثر ایران میں ختم ہوگیا اور ایران کے تمام وسائل دولت نیز امور داخلہ وخارجہ پہ انگریز قابض ہوگیا۔ ۱۹۲۱ء میں رضا شاہ پہلوی نے بعد از انقلاب صورتحال میں کچھ تبدیلی پیدا کی۔ لیکن ۱۹۴۱ء میں برطانیہ نے رضا شاہ پہلوی کو گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا اور سات برس تک ایران پر بلاشرکت غیرے حکومت کی دوسری جنگ کے بعد ایران کی سیاست میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ ۱۹۵۲ء میں ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق نے انگریز کو ایران سے نکال باہر کیا اور تمام وسائل دولت اپنے قبضے میں لے لئے۔ لیکن تابکے۔ انگریز ریشہ دوانیوں میں مسلسل مصروف رہا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر مصدق کو گرفتار کر لیا گیا اور آج کل (دسمبر ۱۹۵۳ئ) میں ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔
انگریز ہندوستان میں
یہ تو تھی برطانیہ کی پالیسی بیرون ہند آئیے اب یہ دیکھیں کہ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں سے کیا سلوک کیا۔
۱۶۰۸ء میں ایک برطانوی جہاز سورت کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ یہاں ان لوگوں نے ایک تجارتی ادارہ بنالیا اور شہنشاہ مغلیہ سے تجارتی حقوق حاصل کر لئے۔ اپنی حفاظت کے لئے کچھ فوج بھی رکھ لی۔ جب ملک کے حالات سے اچھی طرف واقف ہوگئے تو انہوں نے سیاسی جوڑ توڑ شروع کر دئیے اور چار سو فتنہ وسازش کا ایک جال پھیلا دیا۔
۱… ۱۶۵۱ء میں اورنگزیب عالمگیر شہنشاہ ہند کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ لیکن سخت شکست کھائی اور تمام تجارتی حقوق سے محروم ہوگئے۔ حالات کو دیکھ کر انگریز خوشامد اور چاپلوسی پر اتر آیا اور چند برس بعد دوبارہ تجارتی حقوق حاصل کر لئے۔ ساتھ ہی اپنی عسکری قوت کو چپکے چپکے کافی بڑھا لیا اور شہنشاہ سے ٹکر لینے کی جگہ چھوٹے بڑے نوابوں اور راجوں کی طرف توجہ پھیردی۔
۲… چنانچہ کلکتہ میں نواب سراج الدولہ کے خلاف فتنہ اٹھایا۔ اس نے مجبوراً حملہ کر دیا۔ انگریزوں نے کلکتہ کو آگ لگا کر ہزارہا انسانوں کو زندہ جلادیا اور ہزارہا کو مفلس وبے نوا بنادیا۔ بازاروں کو جلا کر لوگوں کی اقتصادی قوت کو توڑ دینا اہل فرنگ کا پرانا حربہ تھا۔ جسے یہ لوگ نہایت کامیابی سے مراکش، طرابلس اور دمشق میں استعمال کرچکے تھے۔ امی چند انگریزوں کا