اور باقی رہ گئی ریت، تو کہا کہ جتنیء چاہو پھانکو ہم قطعاً دخل نہیں دیںگے۔
فلسطین
فلسطین عرب کا جزو لانیفک تھا اور برطانیہ نے شریف مکہ سے وعدہ بھی کیا تھا کہ سارا عرب اس کے تسلط میں دے دیا جائے گا۔لیکن ہوا یہ کہ جب فتح کے آثار نظر آنے لگے۔ عراق وعرب سے ترکوں کو دیس نکالا مل چکا تو ۱۹۱۷ء میں برطانیہ کے وزیرخارجہ مسٹر بالفور نے اعلان کر دیا کہ فلسطین کو یہود کا وطن بنایا جائے گا۔ اس اعلان پر ساری دنیائے اسلام میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مسلمانان عالم نے برطانیہ کو اپنے مواعید یاد دلائے۔ لیکن یہاں کون سنتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۱۸ء میں یہود کی آمد شروع ہوگئی۔ ارض پاک میں ہنگامے ہوئے اور قتل وغارت کا بازار گرم ہوگیا۔ انگریز کی سنگین بے دھڑک عربوں کے سینے چیرنے لگیں اور اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے برطانیہ نے ۱۹۲۰ء میں ایک یہودی، سربربرٹ سموئیل کو فلسطین کا ہائی کمشنر بناکر بھیج دیا۔ اس شخص نے عربوں کی وہ خبر لی اور مثیاق شریف وبرطانیہ کی وہ مٹی پلید کی کہ توبہ ہی بھلی۔ نتیجتاً سات لاکھ عرب گھروں سے نکال دئیے گئے۔ ان میں سے لاکھوں بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرچکے ہیں اور باقی صحرا میں ادھر ادھر تباہ ہورہے ہیں۔
دیکھا! آپ نے برطانیہ کے انصاف، مواعید پروری اور مسلم دوستی کا عالم۔
شرق اردن
اس علاقہ کی کل آبادی چار لاکھ، بجٹ صرف پانچ لاکھ پونڈ سالانہ، دارالخلافہ عمان کی آبادی بارہ ہزار۔ ہر طرف ریت، جھکڑ، کیکر اور خانہ بدوش قبائل یہ ہے۔ نقشہ اس سلطنت عظمیٰ کا جس پر شریف مکہ کے ایک بیٹے عبداﷲ کو مسلط کیاگیا تھا۔ پھر لطف یہ کہ سارے اختیارات انگریز ریذیڈنٹ کے قبضۂ قدرت میں دے دئیے گئے۔
اس سلطنت کی تخلیق کا مقصد صرف تقسیم عرب اور عربوں کی قوت ومرکزیت کا خاتمہ تھا۔ ورنہ ایسے ریگستان میں جس میں مزروعہ زمین کا رقبہ صرف تیس مربعہ میل ہے۔ سلطنت کون قائم کرتا ہے؟ امیر عبداﷲ تادم زندگی انگریز کا وظیفہ خوار رہا۔ انگریزوں کے اشارے پہ پتلی کاناچ دکھاتا رہا ارو قوت ومرکزیت کی ہر تجویز کا ہمیشہ مخالف رہا۔
ایران
۱۹۰۷ء میں برطانیہ وروس میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا۔ جس کے رو سے شمالی ایران کی دولت پر روس اور باقی پر برطانیہ قابض ہوگیا۔ جب اس ناانصافی پر عوام اور ان کے نمائندوں نے