گئی۔ ظالم فرانسیسیوں کے ٹینک دمشق کے حسین بازاروں میں داخل ہوگئے اور اس قدر گولہ باری کی کہ بازار اینٹوں کا ڈھیر بن گئے اور ہزاروں متمول خاندان بھکاری بن کر رہ گئے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ لیکن برطانیہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
عراق
جنگ عظیم (۱۸۔۱۹۱۴ئ) میں عراقیوں کو بھی آزادی کا چکمہ دے کر انگریزوں نے ساتھ ملالیا۔ لیکن جنگ کے بعد انگریز عراق کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ترکوں کی حکومت میں تمام افسر عراقی تھے۔ لیکن انگریز کے زمانے میں ساڑھے چار سو افسروں میں سے ایک بھی عراقی نہ تھا۔ جب قحط وگرانی اور انگریز کی شہرۂ آفاق لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے سارا عراق قلیوں اور گھسیاروں کی بستی بن کررہ گیا تو اس پر مظاہرے ہوئے۔ پکڑ دھکڑ اور داروگیر کے بعد مظاہرے بغاوت میں تبدیل ہوگئے۔ ۱۹۲۰ء کی بغاوت کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگا لیجئے کہ اس میں برطانوی فوج کے دس ہزار سپاہی (آٹھ ہزار ہندوستانی اور دو ہزار انگریز) ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے باالمقابل نہتے عراقیوں کی کیا درگت بنی ہوگی۔ خود ہی اندازہ کر لیجئے۔ آخر برطانیہ کو عراق کے مطالبہ نیم آزادی کے سامنے جھکنا پڑا۔
شریف مکہ کے دو بیٹوں میں سے ایک کو فلسطین اور دوسرے کو شام کا سلطان بنایا گیا تھا۔ لیکن شام نے کوئی بہانہ سامنے رکھ کر فیصل کو شام سے نکال دیا۔ بعدازاں جب عراق میں انتخاب شاہ کا مسئلہ سامنے آیا تو عراقیوں نے ایک محب وطن کو امیدوار نامزد کیا۔ لیکن برطانیہ مصر تھا کہ شام سے نکالے ہوئے امیر فیصل کو چنا جائے۔ جب عراقی نہ مانے تو برطانیہ نے ان کے امیدوار کو پکڑ کر جلاوطن کر دیا اور زبردستی امیر فیصل کو شاہ عراق بنادیا۔
یہ تھی حقیقت آزادی عراق کی۔ آزادی تو دے دی۔ لیکن شعبہائے ذیل برطانیہ کے قبضے میں رہے اور شاید اب تک ہیں۔
۱… معاملات خارجہ۔
۲… خفیہ پولیس۔
۳… تمام ہوائی اڈے۔
۴… بندرگاہیں۔
۵… تیل کے چشمے۔
۶… تمام معادن ذخائر۔