جب ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم میں انگریزوں نے شریف مکہ سے بغاوت کرائی تو عمر بن عبدالعزیز (سردار نجد) کو بھی ساتھ ملانا چاہا۔ ہر چند کہ عمر دو مرتبہ ترکوں سے مارکھا چکا تھا اور اب انتقام لینے کا موقعہ تھا۔ لیکن اس کی اسلامی غیرت آڑے آئی اور اس نے برطانیہ کی تمام ترغیبات کو جھٹک دیا۔ دوسری طرف ترکوں کے ایک نمک خوار ہاشمی نے محافظین حرم کی وہ خبر لی کہ انہیں پہلے جزیرۃ العرب سے پھر شام اور پھر عراق سے نکلنا پڑا۔
جنگ کے بعد شریف مکہ کو غداری کے صلے میں صرف حجاز کا امیر بنا دیا گیا اور شرق اردن، فلسطین، شام اور عراق اس کی سلطنت سے کاٹ دئیے گئے۔ شریف مکہ نے بہتیرا شور مچایا کہ او میرے آقاؤ! میں اس لولی لنگڑی اور کان کٹی سلطنت کو کیسے چلاؤں گا۔ خدا کے لئے عراق، شام اور دوسرے علاقے ساتھ رہنے دو۔ لیکن سنتا کون تھا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مفلس سلطنت اپنے بوجھ کے نیچے خود ہی دبتی گئی۔ ہر سو قحط وافلاس اور بدنظمی کی وجہ سے اضطراب ہوگیا۔ جس سے ابن سعود نے فائدہ اٹھایا اور ۱۹۲۱ء میں شریف پر حملہ کر دیا۔ شریف بھاگ گیا اور چھ برس بعد انگریز نے ابن سعود کی سلطنت کو بادل ناخواستہ منظور کر لیا۔ زخم لگائے بغیر؟ نہیں بلکہ مندرجہ ذیل کام کے علاقے اپنے قبضے میں کر لئے۔
۱… حضر موت کا علاقہ ایک لاکھ بارہ ہزار مربع میل۔
۲… عدن۔
۳… مسقط وعمان کا علاقہ، بیاسی ہزار مربع میل۔
۴… بحرین اور ملحق علاقے اسی ہزار مربع میل۔
۵… جدہ۔
اور یہی وہ علاقے تھے جن میں تیل کے بے اندازہ ذخائر لوہے اور سونے کی معادن اور لولؤومرجان کے چشمے تھے۔ یہ علاقے تولے لئے انگریز نے، اور باقی ساری ریت سلطان ابن سعود کے حوالے کر کے کہا کہ لو اور جتنی چاہو پھانکو۔
شام
بعد از جنگ شام فرانس کے حوالے ہوا۔ اس پر شامیوں نے سخت احتجاج کیا کہ دوران جنگ میں تو تم نے ہم سے آزادی کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ؎
دل شاہین نمی سوزد براں مرغے کہ درچنگ است نتیجتاً تمام لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ دمشق پر مسلسل اڑتالیس گھنٹے بمباری کی