۱۹۱۱ء میں برطانیہ واٹلی میں بھی ایک خفیہ معاہدہ ہوا۔ جس کے رو سے اٹلی نے طرابلس پر حملہ کر دیا۔ وہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نہتے مردوزن قتل کر ڈالے۔ شہر کے شہر جلادئیے۔ بلکہ بعض شہروں کی ساری آبادی کو شیرخوار بچوں سمیت موت کے گھاٹ اتاردیا۔ ہزاروں کو آگ میں زندہ پھینک دیا۔ عورتوں کو برہنہ کر کے پھانسی پر لٹکادیا۔ ایک بہت بڑی تعداد کو زنجیروں میں جکڑ کر تپتے ہوئے صحراؤں میں ڈال دیا۔ ہزارہا کو بلند چٹانوں سے دھکیل دیا۔ سینکڑوں کو ہوائی جہازوں سے زمین پر پھینک دیا اور لاکھوں بچوں کو آغوش مادر سے الگ کر کے اٹلی میں بھیج دیا۔ تاکہ انہیں عیسائی بنایا جائے۔ ان مظالم سے ’’لنڈن ٹائمز‘‘ جیسا سنگدل اخبار بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے کہا: ’’یہ مظالم اس سمجھوتہ کا نتیجہ ہیں۔ جو اٹلی اور برطانیہ میں ہوا تھا اور جس کے رو سے اٹلی کو ان ممالک پر حملہ کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔‘‘
یہ تو تھا حال طرابلس کا۔ مصر میں انگریز دونوں ہاتھوں سے مصر کولوٹ رہا تھا۔ خام اجناس سستے داموں خرید کر کسانوں کو کمزور کر رہا تھا۔ رفتہ رفتہ قحط وگرانی کی وجہ سے ملک کی یہ حالت ہوگئی کہ طول وعرض مصر میں انگریزی مظالم پہ گیت تیار ہوگئے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ایک دور افتادہ دحقانی کو گیت گاتے ہوئے سناگیا۔
والے بر فرنگ جو ہمارا غلہ لے گیا
تمام مویشی لے گیا سارے بچے لے گیا
اب ہمارے پاس صرف جانیں رہ گئیں
اے رب تو ہمیں جلد نجات دلا
نجدو حجاز
اٹھارویں صدی کے ربیع اول میں محمد بن عبدالوہاب (ایک مصلح) نجد سے اٹھا۔ اس کا مقصد قبر پرستی اور دیگر ہمچو رسوم وعقائد کی بیخ کنی تھا۔ نجد کا سردار محمد بن سعود اس کا پیرو بن گیا۔ محمد بن عبدالوہاب ترکوں کے خلاف تھا۔ اس کے تمام مرید سردار نجد کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے اور ترکوں کے خلاف ایک زبردست محاذ قائم ہوگیا۔ ۱۸۸۵ء میں ترکی سپاہ نے سردار نجد عبدالعزیز کو قتل کر ڈالا اور اس کی جمعیت کو پریشان کر دیا۔ اس کا ایک پنجسالہ بیٹا عمر نامی عمان میں پہنچادیا گیا۔ اس نے بڑے ہوکر چند قبائل کو ساتھ ملالیا اور ریاض پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیا۔ (یہ ۱۶۱۲ء کا واقعہ ہے) ترکوں کے گورنر شریف مکہ نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے ایک زبردست شکست دی۔ لیکن سرداریٔ نجد سے اسے محروم نہ کیا۔