اہل مصر کے ساتھ انگریزوں کا سلوک کیا تھا۔ اس سلسلے میں صرف ایک کہانی سنئے:
۱۳؍جون ۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے کہ چند انگریز افسر شکاری بندوقیں اٹھائے ایک گاؤں میں جا نکلے اور وہاں قریب کے کھیتوں میں خانگی کبوتروں کا شکار کھیلنے لگے۔ چند دیہاتی ان کے پاس گئے اور کہا کہ یہ ہمارے پالتو کبوتر ہیں۔ انہیں مت مارئیے۔ اس پر انگریز بہادر نے بگڑ کر کہا: ’’ویل ٹم بھاگنا مانگٹا۔ ورنہ ہم ٹم کو گولی مارنا مانگٹا۔‘‘
دیہاتیوں نے اپنی التماس پہ اصرار کیا تو ان ٹامیوں نے بندوقوں کا منہ ان کی طرف پھیر دیا۔ یہ غریب بھاگ نکلے۔ انہوں نے ان پر اندھا دھند فائر کئے۔ جن سے ایک نوجوان لڑکی جو کھیت میں سے گذر رہی تھی ہلاک ہوگئی۔ اس پر چند مشتعل دیہاتیوں نے ان ٹامیوں پر پتھر برسائے۔ ٹامیوں نے اپنے افسر اعلیٰ لارڈ کرومز کو اطلاع دی۔ سارا گاؤں گرفتار کرلیا گیا اور مندرجہ ذیل سزائیں فوراً نافذ ہوئیں۔
۱…
چھ دیہاتیوں کو جنہوں نے پتھر برسائے تھے موت کی سزا دی گئی۔
۲…
چھ کو سات سال قید بامشقت۔
۳…
تین کو ایک سال قید اور پچاس پچاس کوڑے۔
۴…
باقی سارے گاؤں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے گئے۔
اس واقعہ کے بعد لاررڈ کرومز نے جورپورٹ حکومت برطانیہ کو بھیجی اس میں درج تھا۔ ’’سزاؤں کے نافذ کرنے میں انسانیت کے پورے احساسات کو ملحوظ رکھا گیا۔‘‘
(تاریخ انقلابات عالم، بوسعید بزمی ص۳۵۵)
جب اس واقعہ کا ذکر پارلیمنٹ میں آیا تو وزیر خارجہ نے کہا کہ: ’’اس شورش کے ذمہ دار عبدالنبی اور حسن تھے۔ انہوں نے محمد کے نام پر عیسائیت کے خلاف ایک سازش شروع کر رکھی تھی۔ جسے ختم کرنا ضروری تھا اور میں ہاؤس کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ چھ مصلوبوں میں یہ دوشورش پسند بھی شامل تھے۔‘‘
دیکھا آپ نے کہ دو آدمیوں کو سولی دینے کے لئے کیا راستہ اختیار کیاگیا کہ پہلے ٹامیوں کو اس گاؤں میں بھیجا۔ انہوں نے پالتو کبوتروں پر فائر کر کے لوگوں کو مشتعل کیا۔ جب لوگوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے بے دھڑک گولیاں برسائیں اور پھر مظلوم بن کر لارڈ کرومز کے پاس پہنچے۔ اس نے اس واقعہ کو بغاوت کی صورت دے کر عبدالغنی اور حسن کو چار ساتھیوں سمیت سولی پر لٹکادیا۔ اسے کہتے ہیں انصاف، تہذیب اخلاق اور رعایا پروری۔