منہاج رسالتؐ کا احیاء یعنی قرآنی مملکت کا بارد گرقیام ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر میں نے تحریک پاکستان میں امکان بھر حصہ ڈالا اور اسی کے لئے میں تشکیل پاکستان کے بعد آج تک کوشاں ہوں۔ مولوی صاحبان کی طرف سے میری جو اس قدر مخالفت ہورہی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قرآنی مملکت میں مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں رہتا۔
میں ان حضرات سے کہتا ہوں کہ مسئلہ احمدیت کا حل آپ کے مناظروں یا فتوؤں سے نہیں ہوسکے گا۔ اس کا حل حکومت کے قانون کی رو سے ہوسکے گا۔ آپ اس کے لئے حکومت سے کہئے۔ لیکن یہ اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ ان کا مسلک یہ تھا کہ اس مسئلہ کا تعلق اعتقادات (کفر واسلام) سے ہے اور اعتقادات کے متعلق فیصلہ کرنے کے مجاز ہم ہی ہیں، حکومت نہیں۔ حکومت کا فیصلہ ہمارے حیطۂ اقتدار میں مداخلت کے مرادف ہوگا۔ لیکن زمانے کے تقاضوں نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ اس مسئلہ کے فیصلہ کے لئے انہیں حکومت سے کہنا پڑا اور نوے برس سے جو عقیدہ لاینحل چلا آرہا تھا حکومت کے ایک قانون نے اس کا حتمی فیصلہ کر دیا۔ اس سلسلہ میں جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا وہ اس ثنویت کی بنیادوں میں تزلزل پیدا کر دینے کے لئے پہلا اور نہایت اہم اور مؤثر اقدام ہے۔ جسے یہ حضرات صدیوں سے مستحکم کئے چلے آرہے تھے۔ اس سے ایک ایسی نظیر قائم ہوگئی ہے۔ جس سے مملکت پاکستان کے اسلامی بننے کی راہیں ہموار ہوتی چلی جائیںگی۔ بشرطیکہ وہ جملہ (دنیاوی اور مذہبی) امور کے فیصلے، قرآنی حدود کے اندر رہتے ہوئے اسی جرأت وتدبر سے کرتی جائے۔ یہ بھی میرے پیش نظر نصب العین کی طرف ایک نہایت مبارک اقدام ہے اور میرے مزید سجدہ ہائے تشکر وامتنان کا جذبۂ محرکہ۔
۳… اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی آپ کے سامنے آگئی ہوگی کہ حکومت کا یہ فیصلہ کوئی نیا فیصلہ نہیں۔ مرزاقادیانی کے دعویٰ کی بنیادی اینٹ مسلمانوں سے علیحدگی اور اپنی جداگانہ امت کی تشکیل پر رکھی گئی تھی۔ حکومت کے حالیہ فیصلہ نے صرف اس امر واقعہ کو آئینی حیثیت دے دی ہے اور ایسا کرنا آئینی طور پر ضروری بھی تھا۔ جس مملکت کی بنیاد اسلام پر ہو مسلم اور غیرمسلم میں امتیاز وتفریق اس کی قانونی ضرورت اور آئینی فریضہ ہوتا ہے۔ احمدی حضرات نے اس فیصلہ سے کچھ کھویا بھی نہیں۔ مروجہ آئین پاکستان کی رو سے (صدر مملکت اور وزیراعظم کے سوا) کسی معاملہ میں مسلم اور غیرمسلم میں تخصیص وتمیز نہیں کی گئی اور غیر مسلم اس اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہیں کہ اقلیت ہونے کی بناء پر انہیں ہر قسم کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہے۔