اﷲﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے خواہ وہ اس لفظ کو کوئی معنی پہنائے یا کسی رنگ میں مدعی نبوت ہو۔ وہ اور جو شخص ایسے مدعی نبوت کو نبی یا مذہبی ریفارمر مانے۔ آئین اور قانون کی رو سے مسلمان نہیں۔‘‘
نیز یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ احمدیوں کی دونوں جماعتوں (قادیانی اور لاہوری) کو غیر مسلم اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ آپ نے متن کتاب میں دیکھا ہوگا کہ میں نے مختلف مقامات پر یہی مشورہ دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ مسئلہ علماء کے فتوؤں سے حل نہیں ہوگا۔ حکومت کے قانون نے اسے حل کر دیا۔ ﷲ الحمد کہ جس حقیقت نے ۱۹۳۵ء میں میرے ایک مقالہ کی بناء پر عدالت (بہاولنگر) کے فیصلہ کی شکل اختیار کی تھی۔ قریب چالیس سال کے بعد وہ آئین پاکستان کا حصہ بن گئی۔ یہ میری زندگی کا مشن تھا۔ جس کی تکمیل پر میں بدرگاہ رب العزت جتنے سجدہہائے تشکر بھی ادا کروں کم ہیں۔
میرے ان جذبات انبساط تشکر کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے احمدی حضرات سے کوئی چڑ تھی۔ یا یہ میرے ذاتی وقار کا سوال تھا۔ جس کی کامیابی پر مجھے اس قدر خوشی ہوئی ہے۔ اسلام، خدا کا آخری اور مکمل دین اسی صورت میں قرار پاسکتا ہے کہ نبوت محمدیہ کو تمام نوع انسان کے لئے قیامت تک قائم ودائم تسلیم کیا جائے۔ حضورﷺ کے بعد خدا کی طرف سے وحی پانے کا دعویٰ، خواہ اس کا نام کچھ ہی کیوں نہ رکھ لیا جائے۔ اسلام کی اس بنیاد اور نبوت محمدیہ کی اس انفرادیت اور اختصاص کو ختم کر دیتا ہے۔ دین کی اساسات کا استحکام میرے ایمان کا جزو اور تحفظ ناموس رسالت، میرے عشق کا تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن سے لے کر اس وقت تک میری زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے لئے وقف رہا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل پر میرے جذبات انبساط وتشکر کی بنیادی وجہ یہ ہے۔
۲… اس کی دوسری وجہ اور بھی ہے۔ اسلام میں دنیاوی امور اور مذہبی امور میں ثنویت اور مغائرت نہیں۔ یہ تمام امور اسلامی مملکت کے دائرہ اقتدار کے اندر ہوتے ہیں۔ اس سے پیشوائیت کا تصور اور وجود ختم ہو جاتا ہے۔ صدر اوّل میں (جب اسلامی مملکت قائم تھی) آپ کو مذہبی پیشوائیت کا نام ونشان تک نہیں ملے گا۔ جب اسلامی مملکت کی جگہ ملوکیت نے لے لی تو مذہبی پیشوائیت پھر وجود میں آگئی اور ثنویت قائم ہوگئی۔ دنیاوی امور، حکومت نے خود سنبھال لئے اور مذہبی امور علماء کی تحویل میں دے دئیے گئے۔ میری زندگی کا دوسرا مشن خلافت علیٰ منہاج