مسلمانوں کے ہاتھوں انہیں کسی قسم کا خطرہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جس امن وامان سے یہاں دوسری غیر مسلم اقلیتیں رہتی ہیں۔ اسی طرح سے یہ بھی رہیںگے۔ غیرمسلموں کو تو اہل الذمہ کہا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اسلامی مملکت ان کی ہر طرح کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے۔ جان، مال، عزت، آبرو، مذہبی شعائر، سب کی حفاظت۔
۴… آپ نے یہ بھی دیکھ لیا ہوگا کہ رسول اﷲﷺ کے بعد باب نبوت کے کھل جانے کا بنیادی سبب ایک آنے والے کے انتظار کا عقیدہ ہے۔ ختم نبوت کے معنی ہی یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے آنے والوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ جس نے آخری بار آنا تھا۔ چودہ سو سال ہوئے وہ آگیا۔ اب خدا کی طرف سے کوئی نہیں آئے گا۔ نہ ہی اب کوئی خدا کی طرف سے براہ راست علم حاصل کر سکے گا۔ خدا نے جو کچھ نوع انسان سے کہنا تھا اسے اس نے آخری مرتبہ کہہ دیا اور اب وہ قرآن مجید کے اندر مکمل شکل میں محفوظ ہے۔ ’’تمت کلمت ربک (الانعام:۱۱۵)‘‘ کے معنی یہی ہیں کہ خدا نے جو باتیں (کلام) انسانوں سے کرنی تھیں۔ ان کا تمام ہوگیا۔ اب کوئی ایسی بات باقی نہیں رہی جسے اس نے انسانوں سے کرنا ہو۔ لہٰذا خدا کے ساتھ مخاطبات ومکالمات کا امکان ’’تمت کلمت ربک‘‘ کے منافی اور عقیدہ ختم نبوت سے متناقض ہے۔ آنے والے کا نظریہ یکسر غیرقرآنی ہے اور دوسروں کے ہاتھ سے مستعار لیا ہوا۔ دنیا کے ہر مذہب میں آنے والے کا عقیدہ تھا اور اسلام کو ان پر اس لحاظ سے بھی برتری حاصل تھی کہ اس میں آنے والے کا عقیدہ نہیں تھا جو اس کے مکمل ہونے کی دلیل تھی۔ ان اہل مذاہب نے اسلام کی اس برتری کو ختم کرنے کے لئے وضعی روایات کے ذریعے آنے والے کا عقیدہ ہمارے ہاں بھی رائج کردیا اور اسے اس قدر اہمیت دی کہ وہ کفر واسلام کا معیار قرار پاگیا۔ جب تک یہ عقیدہ ہم میں باقی رہے گا۔ جھوٹے مدعی پیدا ہوتے رہیںگے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے ہر عقیدہ اور نظریہ کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار خدا کی کتاب (قرآن مجید) کو قرار دیں۔ اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ حقیقت ثبت ہو جائے گی کہ ؎
او رسل را ختم وما اقوام را
والسلام!
۳؍اکتوبر۱۹۷۴ئ پرویز