مسلمانان ہند نے ایک اسلامی مملکت متشکل کرنے کا طے کر لیا۔ جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ یہ مملکت ۱۹۴۷ء میں وجود میں آگئی۔ اس مملکت کے کرنے کا پہلا کام یہ تھا کہ یہاں دو قومی نظریہ کو عملاً متشکل کرتے۔ یعنی مسلمانوں اور غیرمسلموں کا تعین کرتے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ الگ قرار دیتے۔ اس سے کفر بازی کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا اور مرزاقادیانی کے متبعین کی آئینی حیثیت بھی متعین ہو جاتی۔ لیکن مملکت پاکستان نے دو قومی نظریہ کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اگرچہ ان الفاظ کو برابر دہراتے رہے اور دہراتے چلے جارہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ یہاں باہمی تکفیر کا سلسلہ بھی بدستور جاری رہا۔ لیکن چونکہ یہاں بھی مذہبی آزادی کی ضمانت حسب سابق دی گئی تھی۔ اس لئے ارتداد کی بناء پر قتل کی نوبت نہ آئی۔ یہ جو ہمیں باربار یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ منیر کمیٹی کے روبرو، علماء حضرات یہ بھی متعین نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان کہتے کسے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ فریضہ مملکت کا تھا کہ وہ متعین کرے کہ مسلمان کسے تسلیم کیا جائے گا اور غیر مسلم کون قرار پائے گا۔ مملکت اس فریضہ کی ادائیگی سے قاصر رہی اور پوزیشن اس اسلامی مملکت میں بھی وہی رہی جو غیر منقسم ہندوستان میں تھی۔
۲… ۱۹۷۳ء کے آئین میں پہلی بار اس کی صراحت کی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کی شرط کیا ہے وہ اس طرح کہ:
۱… آئین میں کہاگیا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے لئے مسلمان ہونا لازمی ہے۔
۲… صدر اور وزیراعظم کے حلف نامہ میں اس امر کا اقرار لازمی رکھاگیا ہے کہ وہ حضورﷺ کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں اور آپ کے بعد سلسلۂ نبوت کو ختم قرار دیتے ہیں۔
۳… اس سے بالواسطہ یہ طے پاگیا کہ آئین کی رو سے کسی کو مسلمان تسلیم کئے جانے کی شرط یہ ہے کہ وہ اس امر پر ایمان رکھے کہ نبوت کا سلسلہ حضورﷺ کی ذات پر ختم ہوگیا۔ بالفاظ دیگر جو شخص اجرائے نبوت کا قائل ہو اسے آئین کی رو سے مسلمان تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ (واضح رہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم کو منسوخ اور حرام قرار دینا بجائے خویش دعویٰ نبوت ہے۔ اس لئے اس کا مدعی یا معتقد بھی اجرائے نبوت کا قائل قرار پائے گا)
۴… آئین میں ہندو، پارسی، عیسائی، بدھوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا ہے۔ اب آئین کی مذکورہ بالا شرط کی رو سے جو بھی غیرمسلم قرار پائے گا اس کا شمار ان اقلیتوں میں ہو جائے گا۔جیسا کہ کہا جاچکا ہے ۔ ان غیرمسلم اقلیتوں کو تحفظات کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن جہاں تک حقوق کا تعلق ہے ان میں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں کیاگیا۔ بجز اس کے