اسرافیل پھونک دیتا ہے۔ اس سے قوم کے عروق مفلوج میں پھر سے خون حیات رقص کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ اپنی ملت کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے اور ان کے ایک ہاتھ میں زمین کی خلافت اور دوسرے میں آسمان کی بادشاہت دے دیتا ہے۔ وہ اپنی ہوش ربا تعلیم اور محیر العقول عمل سے باطل کے تمام نظامہائے کہنہ کی بنیادیں اکھیڑ کر آئین کائنات کو ضابطۂ خداوندی پر متشکل کردیتا ہے۔ اس سے زندگی ایک نئی کروٹ لیتی ہے۔ آرزوئیں آنکھیں ملتی ہوئی اٹھتی ہیں۔ ولولے جاگ پڑتے ہیں۔ ایمان کی حرارتیں، دلوں میں سوز اور جگر میں گداز پیدا کرتی ہیں۔ روح کی مسرتوں کے چشمے ابلتے ہیں۔ قلب وجگر کی نورانیت کی سوتیں پھوٹتی ہیں۔ تازہ امیدوں کی کلیاں مہکتی ہیں۔ زندہ مقاصد کے غنچے چٹکتے ہیں اور اس خوش بخت قوم کا صحن چمن، دامان صدباغبان وکف ہزار گلفروش کا فردوسی منظر پیش کرتا ہے۔ حکومت الٰہی کا قیام اس کا نصب العین اور قوانین خداوندی کا نفاذ اس کا منتہی ہوتا ہے۔ جب اس کے ہاتھوں خدا کی بادشاہت کا تخت اجلال بچھتا ہے تو باطل کی ہر طاغوتی قوت پہاڑوں کے غاروں میں منہ چھپاتی پھرتی ہے جورواستبداد کے قصر فلک بوس کے کنگورے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ طغیان وسرکشی کے آتش کدے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کی قدوسی جماعت کے ساتھ اعلائے کلمتہ الحق کے لئے باہر نکلتا ہے تو فتح وظفر اس کی رکاب چومتی ہے۔ شوکت وحشمت اس کے جلو میں چلتی ہے۔ سرکش اور خود پرست قوتیں اس کے خدائے واحد القہار کا کلمہ پڑھتی ہیں اور خدا اور اس کے فرشتے ان انقلاب آفرین ملکوتی کارناموں پر تحسین وتبریک کے پھولوں کی بارش کرتے ہیں۔ ان اﷲ وملئکتہ یصلون علی النبی!‘‘
یہ تھا مقام نبوت جسے شمع قرآنی سے اکتساب ضیاء کے بعد میں نے ان الفاظ میں پیش کیا تھا۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ایک مدعی نبوت آتا ہے۔ جس کی ساری عمر انگریزوں جیسی ابلیسی سیاست کی حامل قوم کی غلامی کی تلقین وتاکید میں گذر جاتی ہے۔ وہ لیفٹیننٹ گورنر بہادر کو درخواستوں پر درخواستیں گذارتا ہے کہ میں نے آپ کی اس قدر خدمت کی ہے۔ آپ اس کے صلہ میں میری حفاظت بھی کریں اور خصوصی مراعات سے بھی نوازیں۔ سوچئے عزیزان من! کہ اس سے نبوت کو کس مقام پر لے آیا گیا ہے؟ یہی وہ احساس تھا جس سے تڑپ کر اقبالؒ نے کہا تھا کہ ؎
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے