فتاویٰ کی رو سے جس قدر مسلمانوں کا خون خود مسلمانوں کے ہاتھوں بہا ہے۔ اس کے چھینٹوں سے ہماری تاریخ کے اوراق لالہ زار بنے چلے آرہے ہیں۔ یہ عقیدہ قرآن کریم کی کھلی ہوئی تعلیم کے خلاف ہے۔ وہ مذہبی آزادی کا علمبردار ہے اور تبدیلی مذہب کو جرم قرار نہیں دیتا۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ یہ عقیدہ وضع کردہ ہے،۔ اس لئے کہ جو عقیدہ یا نظریہ قرآن کریم کے خلاف ہوگا وہ بعد کا وضع کردہ ہوگا۔ چونکہ میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ اس لئے اس مقام پر اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس سوال سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ادارہ طلوع اسلام کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ قتل مرتد کا مطالعہ کریں۔
۹… انگریز ہندوستان میں آیا تو اس نے تمام باشندگان ملک کو مذہبی آزادی دے دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے علماء کفر کے فتوے تو بدستور صادر کرتے رہے۔ لیکن ان کے نتیجہ میں کسی کا خون نہ بہا۔ ان کے فتاویٰ کفر کی بے محابیوں کا یہ عالم تھا (اور ہے) کہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ ایسا نہیں جس پر دوسرے فرقوں کے علماء نے کفر کا فتویٰ نہ لگایا ہو۔ بالفاظ دیگر اس وقت عالم اسلام میں شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جو ان کے فیصلوں کے مطابق کافر نہ قرار پاچکا ہو۔ لیکن ان فتوؤں سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا تھا۔ وہ ویسے کا ویسا مسلمان رہتا تھا۔ (اور رہتا ہے) اس سے البتہ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ یہ حضرات وقتی طور پر عوام کو مشتعل کر دیتے اور اس شخص کے پیچھے لگادیتے ہیں۔ جس پر یہ کفر کا فتویٰ عائد کر دیں۔
۱۰… یہ تھے ہندوستان میں وہ حالات جن میں مرزاغلام احمد قادیانی نے مختلف دعاوی (منجملہ دعویٰ نبوت) کئے۔ علماء نے حسب معمول ان پر کفر کے فتویٰ لگائے۔ لیکن (جیسا کہ اوپر کہاگیا ہے) ان کی حیثیت محض نظری رہی۔
۱۱… مدعیان باطل میں مرزاقادیانی کی پوزیشن بالکل منفرد ہے۔ دوسروں نے نبوت کے دعویٰ کئے تو خود ہی مسلمانوں سے الگ ہوگئے۔ لہٰذا ان کے ساتھ کسی قسم کا جھگڑا، تنازعہ نہ رہا۔ ان کی حیثیت ویسی ہی ہوگئی جیسی دیگر اہل مذاہب کی تھی۔ لیکن مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کیا تو کہا کہ مسلمان وہ ہیں جو میرے متبعین ہیں جو مجھے نہیں مانتا وہ مسلمان ہی نہیں یعنی انہوں نے اپنے سوا ساری دنیا کے مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا۔
لیکن جس طرح (ہندوستان میں) ہمارے علماء کے فتوے سے مرزاقادیانی اور ان کے متبعین کا کچھ نہ بگڑا اسی طرح مرزاقادیانی کے فتوے سے ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔