قرآنی احکام واقدار واصول کو عملاً نافذ کرنے کی اس سے یہ بھی واضح ہے کہ یہ فریضہ صرف امت مسلمہ کے افراد سرانجام دے سکتے ہیں۔ غیر مسلم اس میں شریک نہیں ہوسکتے۔
۴… اسلامی مملکت میں مسلم اور غیرمسلم دونوں آباد ہوںگے۔ لیکن (جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے) غیر مسلم، نہ امور مملکت میں دخیل ہوسکتے ہیں، نہ رموز حکومت میں شریک۔ اس اعتبار سے اسلامی مملکت میں دو الگ الگ گروہ آباد ہوںگے… مسلم اور غیر مسلم… اسی کو دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔
۵… اسلامی مملکت میں غیر مسلم امور مملکت میں تو شریک نہیں ہوسکتے۔ لیکن انہیں تمام انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور مملکت ان کے جان، مال، عزت آبرو، معابد کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ نیز انہیں مذہبی آزادی بھی حاصل ہوتی ہے۔
۶… تصریحات بالا سے واضح ہے کہ اسلامی مملکت میں مسلم اور غیر مسلم میں خط امتیاز کھینچنا مملکت کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان دونوں کی آئینی پوزیشن الگ الگ ہوتی ہے۔
۷… صدر اوّل میں جب اسلامی مملکت قائم تھی تو اس کے دائرہ اقتدار میں بسنے والے مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے سے بالکل متمیز اور الگ الگ تھے۔ یعنی مملکت آئینی طور پر طے کرتی تھی کہ مسلم کون ہیں اور غیرمسلم کون۔ مملکت کے سوا کسی کو کسی کے کفر واسلام کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔
۸… اس کے بعد جب مملکت اسلامی نہ رہی تو دین، مذہب میں تبدیل ہوگیا اور مملکت (یوں سمجھئے گویا) سیکولر ہوگئی۔ جب مملکت کے باشندوں کے کفرواسلام کا فیصلہ کرنا مملکت کا آئینی فریضہ نہ رہا تو اسے مذہبی پیشوائیت نے اپنے حیثۂ اقتدار میں لے لیا۔ انہوں نے کفر اور اسلام کے فتاویٰ صادر کرنے شروع کر دئیے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان فتاویٰ کی حیثیت ان کی ذاتی آراء کی سی تھی۔ لیکن یہاں ایک اور عقیدہ وضع کر لیا گیا۔ وہ یہ کہ جس مسلمان کے متعلق یہ حضرات فتویٰ صادر کر دیتے کہ اس نے اسلام چھوڑدیا ہے۔ اسے مرتد قرار دے دیا جاتا اور مرتد کی سزا قتل۔ یاد رہے کہ اسلام چھوڑ دینے سے مراد یہی نہیں کہ وہ مسلمان، عیسائی، یہودی یا مجوسی وغیرہ ہو جاتا۔ جس مسلمان کے متعلق یہ کہہ دیتے کہ اس کے عقائد اسلام کے مطابق نہیں رہے۔ (یعنی ان حضرات کے عقائد کے مطابق نہیں رہے) اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جاتا۔ ان