کے متعلق مرزاقادیانی نے جوکچھ کہا ہے۔ اسے پہلے بھی درج کیا جاچکا ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس کا ایک ٹکڑا دوبارہ ملاحظہ فرمائے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ: ’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا۔ خدا کے حکم سے بندکیاگیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرمایا کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیںگے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
اس کی وضاحت میں مرزاقادیانی نے جو نظم لکھی تھی اسے ہم پہلے درج کر چکے ہیں اور یہ بھی بتاچکے ہیں کہ جہاد کو حرام قرار دینے کے سلسلہ میں انہوں نے اتنا کچھ لکھا جس سے (بقول ان کے) پچاس الماریاں بھر جائیں۱؎۔ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
لاہوری جماعت کو اس کا اقرار ہے کہ مرزاقادیانی نے واقعی تلوار کے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا۔ پیغام صلح بابت ۲۸؍جولائی ۱۹۷۱ء کے افتتاحیہ میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ مرزاقادیانی نے جہاد کو حرام قرار دیا تھا۔
’’معلوم ہونا چاہئے کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جہاد جو ارشاد الٰہی ’’قاتلوا فی سبیل اﷲ الذین یقاتلونکم‘‘ کی تعمیل میں کفار کے حملہ کے جواب میں قتال کی صورت میں کیا جاتا ہے اور دوسری قسم کا جہاد اسلام پر اعتراضات کے دفعیہ اور تبلیغ اسلام کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس دوسری قسم کے جہاد کو حضرت رسول کریمﷺ نے جہاد اکبر قرار دیا ہے۔ مرزاقادیانی نے جہاد کو مطلقاً منسوخ نہیں کیا۔ انہوں نے علمائے اسلام کی تائید میں۲؎ جہاد اصغر (یا تلوار کے جہاد کو) منسوخ قرار دیتے ہوئے نبی اکرمﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں جہاد اکبر کو جاری رکھا۔‘‘
۱؎ واضح رہے کہ کسی غیر کو بزور شمشیر مسلمان کرنا قرآن کی رو سے قطعاً جائز نہیں۔ جہاد بالسیف دین کی حفاظت کے لئے ہے۔ اسی کو مرزاقادیانی حرام قرار دیتے اور منسوخ ٹھہراتے ہیں۔
۲؎ جن علماء نے ایسا کیا تھا وہ اسی جرم کے مرتکب تھے۔ ان کے کسی مسلک کو سند کے طور پر پیش کرنا عام مسلمانوں کے نزدیک بھی قابل نہیں قرار پاسکتا۔ چہ جائیکہ اسے ایک مامور من اﷲ کے دعویٰ کی تائید میں پیش کیا جائے۔ ویسے بھی مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے جہاد کو خدا کے حکم سے بند کیا ہے۔