مرزاقادیانی نے اپنی ایک تقریر میں جسے (سابق) امیر جماعت احمدیہ لاہور، مولوی محمد علی نے اپنی کتاب النبوۃ فی الاسلام میں نقل کیا۔ فرمایا: ’’دیکھو جس طرح جو شخص اﷲ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے ان کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تقویٰ، طہارت کو بجانہ لائے اور ان احکام کو جو تزکیہ نفس، ترک شر اور حصول خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں۔ چھوڑدے وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں اور اس پر ایمان کے زیور کے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آسکتا۔ اسی طرح جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ بھی حقیقت اسلام اور غایت نبوت اور غرض رسالت سے بیخبر محض ہے اور وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اس کو سچا مسلمان، خدا اور رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں۔ کیونکہ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ذریعے قرآن شریف میں اور احکام دئیے ہیں۔ اسی طرح سے آخری زمانے میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیش گوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اس کے نہ ماننے والوںاور اس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام ص۲۱۴،۲۱۵)
یہ صریح جھوٹ ہے اور خدا کے خلاف افتراء قرآن کریم میں کہیں ایسا نہیں کہاگیا۔
بہرحال ان مقامات میں مرزاقادیانی نے الفاظ کے انتخاب میں تھوڑی سی احتیاط برتی ہے۔ اس پیچ کے بعد بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا۔ وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ کیونکہ میری نسبت خدا ورسول کی پیش گوئی موجود ہے۔ اب جو شخص خدا ورسول کے احکام کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خدا کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانیوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مؤمن کیونکر ہوسکتا ہے اور اگر وہ مؤمن ہے تو میں بوجہ افتراء کرنے کے کافر ٹھہرا۔ کیونکہ میں ان کی نظر میں مفتری ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۶۳،۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۸)
ان اقتباسات کی روشنی میں ہم لاہوری جماعت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جو شخص مرزاقادیانی کو مامور من اﷲ یا مسیح موعود نہیں مانتا۔ اسے آپ مسلمان تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ اسے مسلمان نہیں مانتے تو آپ میں اور قادیانیوں میں فرق کیا رہا اور اگر اسے مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر مرزاقادیانی (خود اپنے الفاظ کی رو سے) کافر ٹھہرے۔ کیا آپ انہیں کافر سمجھتے ہیں یا نہیں؟