نے جہاد (قتال بالسیف، تلوار کے ساتھ جنگ) کو جو اہمیت دی ہے وہ کسی بھی مسلمان سے پوشیدہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے بعد قرآنی اعمال صالحہ کی فہرست میں سب سے اوپر اس جہاد (قتال بالسیف) کا نام آتا ہے۔ اس نے مؤمنین کی خصوصیت یہ بتائی ہے کہ: ’’ان اﷲ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اﷲ فیقتلون ویقتلون وعدًا علیہ حقاً فی التوراۃ والانجیل والقراٰن (التوبہ:۱۱۱)‘‘ {یہ حقیقت ہے کہ خدا نے مؤمنین سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں اور مال بھی اور اس کے عوض انہیں جنت کی زندگی عطاء کردی ہے۔ یہ اﷲ کی راہ میں جنگ (جہاد بالسیف) کرتے ہیں۔ جس میں دشمنوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہو جاتے ہیں۔ (خدا کا یہ وعدہ کوئی نیا وعدہ نہیں۔ اس نے یہ وعدہ) توریت اور انجیل میں بھی کیا تھا اور اب اسے قرآن میں بھی دہرایا جاتا ہے۔}
اس سے ظاہر ہے کہ کسی شخص کے مؤمن ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ قتال فی سبیل اﷲ کے لئے ہر وقت تیار رہے کہ جہاں تک اس عمل کی افضلیت کا تعلق ہے واضح الفاظ میں کہاگیا ہے کہ: ’’ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات (البقرہ:۱۵۴)‘‘ {ان لڑائیوں میں جان دے دینے والوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں۔} انہیں مردہ کہنا تو ایک طرف تاکید کر دی کہ: ’’ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا (آل عمران:۱۶۹)‘‘ {ان کے متعلق خیال تک بھی نہ کروکہ وہ مردہ ہیں۔}
اس حکم کی محکمیت کے متعلق انہیں بتادیا گیا کہ اگر تم میں یہ جذبہ باقی نہ رہا اور تم نے اس سے راہ فرار اختیار کر لی تو یاد رکھو اس سے تمہاری ملی ہستی فنا ہو جائے گی۔ تم مٹ جاؤگے۔ تمہارا وجود باقی نہ رہے گا۔ ’’الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیما۰ ویستبدل قوماً غیرکم ولا تضروہ شیئا (التوبہ:۳۹)‘‘ {اگر تم جنگ کے لئے نہ نکلے تو تمہیں الم انگیز سزا ملے گی اور خدا تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لاکھڑا کرے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔}
یعنی قتال اور مسلمانوں کی ملی ہستی لازم وملزوم ہیں۔ اگر ان میں جذبہ قتال نہ رہا تو ان کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا۔
قرآن کریم میں جہاد بالسیف کے متعلق اس قسم کی متعدد آیات آئی ہیں۔ لیکن ہم اس مقام پر صرف انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کی بابت ہر مسلمان کو بخوبی علم ہے۔
جس جہاد بالسیف کی اس قدر تاکید اور جس کی اس قدر اہمیت اور فضیلت ہے۔ اس