اگر قبول کرے دین مصطفی انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام
یورپ میں اشاعت اسلام کے ڈھنڈورے اس لئے پیٹے جاتے ہیں کہ سادہ لوح مسلمان اس خیال میں مست رہے کہ مغربی اقوام میں اسلام کوفروغ حاصل ہورہا ہے اور اس کی نگاہ اس طرف اٹھنے ہی نہ پائے کہ اقوام مغرب اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کیا کچھ کر رہی ہیں۔ اشاعت اسلام کے یہ سحر آفریں، خواب آور افسانے، درحقیقت فرنگی کے اس خودکاشتہ پودے کے برگ وبار ہیں۔ جو پچھلی صدی میں بویا گیا تھا۔ اگر آپ سمجھنا چاہیں کہ انگریز کو اس پودے کے لگانے کی ضرورت کیا تھی تو ارمغان حجاز میں علامہ اقبالؒ کی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کا غائر نگاہوں سے مطالعہ کیجئے۔ اس میں ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ میں اور کسی بات سے نہیں ڈرتا۔
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
اس کے لئے اس نے اپنے مشیروں کو نسخہ یہ بتایا تھا کہ تم مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل میں الجھائے رکھو کہ ؎
ابن مریم مرگیا یا زندہ جاوید ہے
ہیں صفات ذات حق، حق سے جدا یا عین ذات
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات
مسلمانوں کو ان مباحث میں الجھائے رکھو اور اس طرح ؎
تم اسے بے گانہ رکھو عالم کردار سے
تابساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
یہ تھا وہ پروگرام جسے انگریز نے تجویز کیا تھا اور جس میں مسلمان کو بری طرح الجھائے رکھا گیا ہے اور جس جال کے حلقے اب اشاعت اسلام کے پراپیگنڈے سے کسے جارہے ہیں۔ یاد رکھئے! جو لوگ اسلام کو بحیثیت ایک مذہب کے دنیا میں پیش کریںگے وہ مسلمان کو دین سے اتنا ہی دور لے جائیںگے۔ دین یہ بتاتا ہے کہ اسلام ایک زندہ حقیقت نہیں بن سکتا۔ جب تک اس کی اپنی آزاد مملکت نہ ہو جس میں قرآن کے احکام کو ملی قوانین کی حیثیت سے نافذ کیا جائے اور