۔ اب اگر ان سے کہا جائے کہ تم میدان کارزار میں کود پڑو تو وہ سب سے پہلے یہ سوال کریںگے کہ امام آخرالزمان کہاں ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو جہاد کی وجہ جواز کیا ہے؟ اور اگر ظہور امام سے پہلے جہاد جائز ہے تو ہمیں اتنے عرصہ سے دھور کیوں دیا جاتا رہا ہے۔ بتائیے ان سوالات کا جواب کیا ہے۔
یہ سن کر سید صاحب نے کہا کہ اگر بات اتنی ہی ہے تو پھر اس مشکل کا حل بڑا آسان ہے۔ ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ تم خودمہدی بن جاؤ۔
چنانچہ درویش سوڈانی نے مہدی بن کر انگریز کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ وہ اگرچہ اس وقت انگریز کو ملک سے نکال تو نہ سکے۔ لیکن اس کے قصر حکومت میں تزلزل پیدا کر دیا۔ اس سے انگریز کے دل پر کیا گزری تھی۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب لارڈ کچز نے سوڈان پر قبضہ کیا ہے تو اس نے تحریک مہدویت کے نام لیواؤں کی قبروں سے ان کی ہڈیاں نکال کر ان کی سخت توہین کی۔ خود مہدی سوڈانی کی قبر کھدوا کر ان کی لاش برآمد کی اور اس کے ٹکڑے کر کے انہیں دریائے نیل میں پھینکوا دیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس کے بعد خود کچز کی موت سمندر میں ڈوب جانے سے واقعہ ہوئی تھی۔ علامہ اقبالؒ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جاوید نامہ میں روح مہدی سوڈانی کی زبانی کہا ہے کہ ؎
گفت اے کشنر! اگر داری نظر
انتقام خاک دوریشے نگر
آسماں خاک ترا گورے نداد
مرقدے جز دریم شورے نداد
مجھے جمال الدین افغانی کی طرف منسوب کردہ اس واقعہ کی صحت وسقم سے بحث نہیں۔ میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ایک دعویٰ مہدی سوڈانی نے کیا اور اس سے اس نے انگریز کی حکومت کے خلاف علم جہاد بلند کر کے اس کے ایوان اقتدار کو متزلزل کردیا اور ایک دعویٰ ہمارے ہاں کے مہدی نے کیا۔ جس نے ساری کوششیں انگریزی تسلط کی جڑیں مضبوط کرنے میں صرف کر دیں۔ یہ حضرات مرزاقادیانی کے دعوائے مجددیت کی تائید میں اکثر امام سرہندیؒ اور شاہ ولیؒ اﷲ کا نام لیا کرتے ہیں کہ انہوں نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن ایسا کہتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ امام سرہندیؒ نے قید وبند کی صعوبات برداشت کرنا گوارا کرلیا۔ لیکن شہنشاہ اکبر کی تعظیم کے لئے جھکنا گوارا نہ کیا۔ شاہ ولیؒ اﷲ نے جب دیکھا کہ یہاں کفار کی قوتیں مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے درپے ہیں تو انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو بلانے کا اہتمام کیا۔ جس نے مرہٹوں کی قوت