آپ نے غور فرمایا کہ مرزاقادیانی اپنے دعویٰ کی تائید میں کون سی آیت پیش کرتے ہیں۔ وہ نہیں جو اس قرآن مجید میں ہے۔ جو مسلمانوں میں مروج ہے اور جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ وہ حرفاً حرفاً وہی ہے جسے اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲ کو دیا اور رسول اﷲ نے امت کو، بلکہ قرأت ابن عباس والی آیت۔
میں نے جب (اپنے ایک مقالہ شائع شدہ طلوع اسلام بابت جنوری ۱۹۷۴ء میں) احمدی حضرات کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ مرزاقادیانی اپنے دعویٰ کی تائید میں ایسی سند پیش کر رہے ہیں جو بالبداہت وضعی ہے اور جس سے قرآن مجید کا محرف ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو لاہوری جماعت کے ترجمان، پیغام صلح نے اپنی اشاعت بابت ۲۳؍جنوری ۱۹۷۴ء میں اس کے جواب میں کہا کہ جسے اختلاف قرأت کہا جاتا ہے۔ اس سے درحقیقت مراد ان آیات کی تعبیر وتفسیر ہے۔ قرأت ابن عباس سے مفہوم یہ ہے کہ اس قرأت کے مطابق محدث کے معنی بھی اس آیت سے نکل سکتے ہیں۔
یہ جواب اس قدر خلاف حقیقت اور فریب انگیز تھا کہ مجھے اس کی تردید میں ایک مبسوط مقالہ لکھنا پڑا جو طلوع اسلام بابت مارچ ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں اس میں سے دو ایک اقتباسات یہاں درج کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ میں نے اس میں لکھا تھا کہ عربی زبان کا ایک ابجد خوان بھی اس حقیقت سے واقف ہوگا کہ قرأت کے معنی تفسیر وتعبیر نہیں۔ اس کے معنی پڑھنا ہیں۔جب قرأت ابن عباسؓ کہا جائے گا تو اس سے مراد ہوگا کہ حضرت ابن عباسؓ اس آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے اور جس طرح وہ اس آیت کو پڑھا کرتے تھے اسی طرح یہ ان کے مصحف میں درج تھی۔ حضرت ابن عباسؓ کی تفسیری روایات الگ ہیں اور ان کی طرف منسوب کردہ مصحف (قرآنی نسخہ) الگ۔ ان کی تفسیر میں نہیں۔ بلکہ ان کی طرف منسوب کردہ مصحف میں زیر بحث آیت لفظ محدث کے اضافہ کے ساتھ درج ہے۔ لہٰذا اسے تفسیر کہنا دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ قرأت کا لفظ قرآن کریم میں (بصیغۂ فعل) اور کتب احادیث میں پڑھنے کے معنوں میں آیا ہے۔ بخاری میں مد القرأت ایک باب ہے جس میں قرأت رسول اﷲ کے تحت لکھا ہے کہ حضورﷺ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر اور الفاظ کو کھینچ کر پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری ج۲ ص۷۴۷، باب انزل القرآن علیٰ سبعہ احرف، کتاب فضائل قرآن) میں حضرت عمرؓ کی طرف منسوب ایک روایت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ: ’’میں نے ہشام بن حکیم