فاؤلئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین (النسائ:۶۹)‘‘ {اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہوںگے۔ جن پر اﷲ نے اپنا انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء صدیق، شہداء اور صالحین۔}
یہ حضرات (اس آیت کا اتنا حصہ پیش کرنے کے بعد) کہتے ہیں کہ دیکھئے! یہاں یہ کہاگیا ہے کہ جو لوگ خدا اور رسول کی اطاعت کریںگے وہ انبیاء کے ساتھ ’’مع النبین‘‘ ہوںگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور رسول کی اطاعت سے انسان، نبیوں کے زمرے میں شامل ہوسکتا ہے۔ (مرزامحمود احمد قادیانی نے تفسیر صغیر میں اس آیت کے ترجمہ میں کہا ہے ’’وہ ان لوگوں میں شامل ہوںگے جن پر اﷲ نے انعام کیا ہے‘‘) یعنی وہ نبی بھی بن سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ذیل کے نکات غور طلب ہیں۔
۱… جیسا کہ ہم پہلے باب میں صراحت سے بتاچکے ہیں۔ نبوت اکتسابی ملکہ نہیں جو انسان اپنی سعی وکاوش (اطاعت خدا ورسول) سے حاصل کر سکے۔ یہ خالصتہً وہبی عطیہ تھا۔ جسے خدا اپنی مشیت کے مطابق منتخب افراد کو عطاء کرتا تھا۔ ۲… اس آیت میں ہے کہ اﷲ اور رسول کی اطاعت کرنے والے انبیائ، صدیق، شہدائ، صالحین کی معیت میں ہوںگے اور اس کی وضاحت آیت کے آخری حصہ نے یہ کہہ کر کردی کہ: ’’وحسن اولئک رفیقا (النسائ:۶۹)‘‘ {اور یہ لوگ کیسے اچھے رفیق ہوںگے۔} اس سے واضح ہے کہ ان لوگوں کو انبیاء کی رفاقت نصیب ہوگی۔ یہ نہیں کہ یہ خود بھی نبی بن جائیںگے۔ ختم نبوت کے بعد انسان،مؤمن، صدیق، شہید، صالح وغیرہ تو بن سکتا ہے۔ نبی نہیں بن سکتا۔ نبی تو کوئی شخص پہلے بھی اپنی کوشش سے نہیں بن سکتا تھا۔ وہ خدا کی طرف سے نبی بنایا جاتا تھا۔ ختم نبوت کے بعد اس کا امکان بھی ختم ہوگیا۔
۳… اگر انبیاء کی معیت (ساتھ ہونے) سے انسان خود بھی نبی بن جاتا ہے تو قرآن کریم میں ہے۔ ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ (الفتح:۲۹)‘‘ {محمد رسول اﷲ اور جو لوگ اس کے ساتھ (معہ) تھے (ان کی خصوصیات یہ تھیں)}
ان حضرات کی اس دلیل کی رو سے (کہ جو کسی کے ساتھ ہو وہ خود وہی کچھ بن جاتا ہے) یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام صحابہؓ (’’والذین معہ‘‘ کے زمرہ میں آنے کی وجہ سے) انبیاء تھے۔ کیا یہ حضرات ایسا ماننے کے لئے تیار ہیں؟