کل (مستقبل) کا علم رکھتا ہوں۔ (اسی کو پیش گوئی کہتے ہیں) تو وہ یا تو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ (کیونکہ قرآن نے کہا ہے کہ غیب کا علم صرف رسولوں کو دیا جاتا ہے) اور وہ (معاذ اﷲ) خدا کو چیلنج دیتا ہے کہ تم تو کہتے تھے کہ کوئی شخص کل کی بات نہیں جان سکتا۔ دیکھو میں کس طرح آنے والے کل ہی کی نہیں، برسوں بعد کی باتیں بھی بتاتا ہوں۱؎۔ قادیانی حضرات عجیب مخمصہ میں پھنس جاتے ہیں۔ وہ مرزاقادیانی کو رسول بھی نہیں مانتے اور انہیں غیب کے علم (پیش گوئیوں) کا مدعی بھی کہتے ہیںَ یہ اس کے لئے عجیب دلیل پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے: ’’ان الذین قالوا ربنا اﷲ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملئکۃ الّاتخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون (حم السجدہ:۳۰)‘‘ {جن لوگوں نے کہہ دیا کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور پھر اپنے اس ایمان پر جم کر کھڑے ہوگئے تو ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے (جو ان سے کہتے ہیں کہ) تم مت خوف کھاؤ، مت گھبراؤ اور اس جنت کی خوشخبری لو جس کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔}
یہ حضرات کہتے ہیں کہ دیکھئے اس آیت میں خدا کے مخلص بندوں پر ملائکہ کے نازل ہونے اور انہیں بشارت دینے کا ذکر موجود ہے۔
یہی بشارات (مبشرات) ہیں جو پیش گوئیاں کہلاتی ہیں۔
ملائکہ کی ہستی ان ما بعد الطبیعاتی حقائق سے ہے جن کی کنہ وماہیت کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ قرآن کریم نے ان کے افعال وخصائص کے متعلق جو کچھ کہا ہے۔ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ (مثال کے طور پر) وہ جہاں مؤمنین کے لئے جنت کی بشارت کا ذکر کرتا ہے۔ وہاں کفار کے متعلق کہا ہے کہ: ’’ولو تریٰ اذ یتوفی الذین کفروا الملئکۃ یضربون وجوہہم وادبارہم وذوقوا عذاب الحریق (الانفال:۵۰)‘‘ {اگر تو اس منظر کو دیکھ سکتا جب ملائکہ کفار کو وفات دیتے ہیں اور ان کے چہروں اور پیٹھ پر (سخت مار) مارتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ تم جلادینے والے عذاب کا مزہ چکھو۔}
مرنے والے کفار ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ لیکن ملائکہ ان کے ساتھ جو کچھ کرتے
۱؎ یہ جو منجم وغیرہ پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں تو یہ محض قیاس آرائیاں ہوتی ہیں جن میں سے بعض اتفاقیہ سچی بھی نکل آتی ہیں۔ قرآن جس علم غیب کا ذکر کرتا ہے وہ قطعی حتمی اور یقینی ہوتا ہے۔