ہم اس استدلال کے سلسلے میں صرف دو معروضات پیش کرتے ہیں۔
اوّل… مسلمان ہر زمانے میں ختم نبوت کے قائل اور مدعی نبوت کو واجب القتل سمجھتے رہے ہیں۔ ایشیائے صغیر، عراق، ایران، شام، مصر، ٹیونس، افغانستان اور بخارا میں صدیوں سے اسلامی حکومت قائم ہے۔ جہاں کسی مدعی نبوت نے سر اٹھایا فوراً یا تو مسیلمہ ومقنع کی طرح قتل ہوگیا یا المتنبی کی طرح تائب ہوگیا۔ فرمائیے ان حالات میں کسی جھوٹے نبی کی دس بیس سالہ نبوت کی گارگزاری لائیں تو کہاں سے۔ اسلامی تاریخ میں سے کوئی ایسی مثال ڈھونڈنا کہ مدعی نبوت ایک طویل مدت تک زندہ رہا ہو۔ بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ہاں اگر کسی اور قوم (ہندو، انگریز وغیرہ) کی حکومت ہو اور وہاں ایک نہیں بلکہ ایک ہزار جھوٹے نبی بھی پیدا ہو جائیں۔ تب بھی ان کا بال بیکا تک نہیں ہوگا۔
انگریز دوسروں کے غیر سیاسی عقائد میں بہت کم دخل دیتا تھا۔ کوئی نبی ہو یا غیر نبی اس کی بلا سے۔ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کے بعد احمدیوں اور غیر احمدیوں (احمدیوں سے زیادہ) سے تقریباً بیس رسول اٹھے۔ مثلاً چراغ دین (جموں)، الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ لاہور، ڈاکٹر عبدالحکیم (پٹیالہ)، فقیر مرزا عبداللطیف گناچوری، یار محمد قادیانی، غلام محمد لاہوری، عبداﷲ تیما پوری، صدیق دیندار وغیرہ وغیرہ۔ ایک دو کے بغیر جو طاعون سے ہلاک ہوئے باقی سب کے سب طبعی موت مرے۔ غلام محمد لاہوری (احمدیہ بلڈنگس) نے ۱۹۳۱ء میں دعوائے نبوت کیا تھا اور ۱۹۵۲ء تک وہ اپنے الہامات ومعجزات نیز دعاوی ودلائل کے مجموعے (مطبوعہ وغیر مطبوعہ) مجھے بھیجتے رہے۔ میں ان تمام کو ردی کی ٹوکری کے حوالے کرتا رہا۔ البتہ میں نے ان کا ایک طویل خط محررۂ ۱۴؍مارچ ۱۹۵۰ء محفوظ کر لیا ہے۔ اس خط میں مجھے لکھتے ہیں کہ تم نے اپنی تصانیف میں مطالعۂ کائنات پہ بھی بحث کی۔ قوم کو ایثار جانی ومالی کا بھی درس دیا۔ نظام شریعت پہ بھی روشنی ڈالی۔ لیکن ’’الامام المہدی آخر الزمان‘‘ کے وجود کو آپ نے اپنی تصانیف میں فراموش کر کے کتمان حق کا بھاری جرم کیا ہے۔
الامام المہدی سے مراد ان کی اپنی ذات ہے۔ اسی طرح تحصیل گڑھ شکر کے ایک موضع گناچور میں مولوی عبداللطیف نے ۱۹۲۱ء میں لوائے نبوت بلند کیا تھا۔ دسمبر ۱۹۲۲ء کا ذکر ہے کہ میں راہوں ضلع جالندھر سے جالندھر کو جارہا تھا کہ دوسرے سٹیشن (نام بھولتا ہوں شاید بنگہ) پر لوگ کہہ رہے تھے کہ اس گاؤں میں ایک پیغمبر آیا ہوا ہے اور ظہر کے بعد وہ تقریر کرے گا۔ میں