اس آیہ سے مرزاقادیانی نے مندرجہ ذیل استدلال قائم کیا۔ ’’خداتعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔ لیکن اس عاجز کے دعوائے مجدد ومثیل مسیح ہونے اور دعوائے ہم کلام الٰہی ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارھواں برس جاتا ہے۔ کیا یہ نشان نہیں ہے کہ اگر خداتعالیٰ کی طرف سے یہ کاروبار نہ ہوتا تو کیونکر عشرۂ کاملہ تک جو ایک حصہ عمر کا ہے ٹھہر سکتا تھا۔‘‘
(نشان آسمانی ص۳۷، خزائن ج۴ ص۳۹۷)
’’پھر تعجب پر تعجب یہ کہ خداتعالیٰ نے ایسے ظالم مفتری کو اتنی لمبی مہلت بھی دے دی۔ جسے آج تک بارہ برس گذر چکے ہوں اور مفتری ایسا اپنے افتراء میں بے باک ہو۔‘‘
(شہادت القرآن ص۷۵، خزائن ج۶ ص۳۷۱)
’’خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ تتمہ اربعین نمبر۳،۴، ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
’’خدا تعالیٰ مفتری علی اﷲ کو ہرگز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۳۳)
’’خداتعالیٰ قرآن شریف میں باربار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہوگا۔ بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے بڑی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں اور ان کو اشاعت دین کی مہلت دی جاتی ہے اور انسان کو اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تیئس برس ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
’’پھر تورات میں یہ عبارت ہے… اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف فرمادیا کہ افتراء کی سزا خدا کے نزدیک قتل ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۴۳۸)
ان اقتباسات کا ملخص یہ ہے کہ ہر جھوٹا نبی (مفتری) ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ میں دعوائے نبوت کے بعد اتنے برس سے زندہ ہوں۔ اس لئے میں سچا رسول ہوں۔ اس استدلال کے سلسلے میں مرزاقادیانی نے مخالف علماء کو باربار چیلنج دیا کہ اگر اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی جھوٹا نبی ہلاک نہ ہوا ہو تو اس کا نام بتاؤ۔ لیکن کوئی عالم گذشتہ ستر برس میں ایک مثال بھی پیش نہ کر سکا۱؎۔
۱؎ صریح خلاف واقعہ امر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ تلبیس اور الفرق بین الفرق میں کئی مفتریوں کے سینکڑوں سال خود یا ان کی اولاد کے صرف زندہ نہیں بلکہ حکمران رہنے کے حوالہ جات ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ (مرتب)