وہیں اترگیا۔ ’’پیغمبر صاحب‘‘ کی تقریر سنی۔ جس کا ملحض یہ تھا کہ مرزاقادیانی کے فلاں فلاں اقوال کی وجہ سے میں پیغمبر ہوں۔ اس کی تقریر کا رخ تمام تر جماعت قادیان کی طرف تھا۔ تقریر کے بعد میں نے اٹھ کر کچھ پوچھنا چاہا۔ تو پیغمبر صاحب نے انکار کر دیا اور اپنی جماعت کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ انہوں نے بعد میں ایک کتاب ’’چشمۂ نبوت‘‘ لکھی۔ نیز بڑے بڑے پوسٹر اپنی نبوت کے متعلق نکالے۔ اس وقت ۴؍مارچ ۱۹۳۳ء کا ایک پوسٹر میرے سامنے ہے۔ اس کے نیچے صوبیدار نیاز احمد خاں، رائے بھینو خاں ذیلدار، چوہدری نذیر احمد خان بی اے، چوہدری سعادت علی خاں، چوہدری مہدی خاں، چوہدری کرامت علی خاں، چوہدری مشتاق احمد خاں، چوہدری احمد خاں اور گڑھ شکر کے چند دیگر راجپوتوں کے دستخط ہیں۔ اس میں درج ہے: ’’مولوی عبداللطیف سکنہ گناچور ضلع جالندھر جو ہماری معزز قوم راجپوت کے ایک فرد ہیں۔ تقریباً بارہ سال سے نبی ہونے امام مہدی، اور مجدد وقت ہونے کا دعویٰ کئے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف اپنی سچائی پر ذیل کے الفاظ میں حلف اٹھاتے ہیں۔
وحی ۱۶؍دسمبر ۱۹۲۵ء خدا کی قسم اس زمانے کا زندہ اولوالعزم رسول ہوں اور اگر اس بات میں میں سچا نہ ہوں تو خدا کی لعنت مجھ پر اور میرے اہل پر ابدالا باد تک ہو اور جو میری اس قسم کا یقین نہ کرے وہ بھی خدا کی طرف سے سزا کا مستحق ہے۔ (عبداللطیف بقلم خود) اس کے مقابل میاں محمود احمد قادیانی خلیفہ المسیح الثانی اور مولوی شیر علی صاحب ذیل کے الفاظ میں قسم کھائیں۔
میں محمود احمد اور مولوی شیر علی جو میری جماعت کے ملہم ہیں۔ خدا کی قسم کھا کر اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ مولوی عبداللطیف کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ اگر ہم اس قسم میں جھوٹے ہیں تو خدا کی لعنت مجھ پر۔ مولوی شیر علی پر اور ہماری اولاد پر ابدالا باد تک ہو۔
مرزاقادیانی کو نبی ماننے سے ہمیں چالیس کروڑ امت محمدیہ کو کافر قرار دینا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ نماز پڑھنی ان کا نماز جنازہ پڑھنا یا ان کے ساتھ رشتہ داری کرنا حرام قرار دینا پڑتا ہے۔ میں بحیثیت نبی مرزاقادیانی کے اس فتویٰ کو منسوخ قرار دیتا ہوں۔‘‘ (اشتہار ۴؍مارچ ۱۹۳۳ئ)
مولوی عبداللطیف کب تک زندہ رہے۔ یقینی طور پر معلوم نہیں، گڑھ شکر کے بعض مہاجرین کہتے ہیں کہ وہ ۱۹۴۵ء تک زندہ رہے۔ بعض ان کا سال وفات ۱۹۴۳ء بتاتے ہیں سن وفات چالیس ہو یا پینتالیس۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں مفتریوں (غلام محمد، عبداللطیف) کو اﷲ