علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین (النسائ:۶۹)‘‘ {ان لوگوں کی رفاقت میں ہوں گے۔ جن پر اﷲ کے انعامات نازل ہوئے۔ مثلاً انبیائ، اصدقائ، شہداء اور صلحائ۔}
جس طرح دنیا میں بے شمار مقامات، مناصب اور اکرامات موجود ہیں۔ اسی طرح اخروی زندگی میں بھی زندگی کے مدارج ہوںگے۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ وہاں امام غزالی اور پھتو کمہار کا درجہ حیات ایک ہو۔ اگر پھتو کمہار خدا ورسول کا کامل پیرو ہے تو اسے منعم علیہم کی رفاقت نصیب ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کی شان نہیں مل سکتی۔ ملکۂ انگلستان (الزبتھ) بکھنگم پیلس میں رہتی ہے۔ جہاں کئی سو ملازموں کو اس کی رفاقت کا فخر حاصل ہے۔ کوئی کھانا پکارہا ہے۔ کوئی بچوں کو بہلارہا ہے۔ کوئی موٹر چلا رہا ہے۔ کوئی صفائی پہ متعین ہے۔ کوئی فرض حفاظت سرانجام دے رہا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی شان ملکوکیت میں شریک نہیں۔
اس آیت سے جو استدلال مرزاقادیانی نے قائم کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب خدا اور رسول کے پیرو اس زندگی میں صدیق، شہید اور صالح بن سکتے ہیں تو وہ نبی بھی ہوسکتے ہیں۔ اس استدلال کے متعلق عرض ہے کہ آیت میں مع (ساتھ، رفاقت، ہمراہ ہونا) کا لفظ ہے۔ یعنی وہ لوگ انبیاء کی رفاقت میں ہوںگے۔ نہ کہ خود نبی بن جائیںگے۔ گورنر کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ساتھی بھی گورنر ہیں۔ انگلستان کے آئین کے مطابق بادشاہ کا صرف بڑالڑکا یا لڑکی ولی عہد ہوا کرتی ہے۔ لیکن اس کی رفاقت کا فخر ایک دن میں کئی سو ملازموں، افسروں اور ملاقاتیوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جن سے کسی ایک کے بھی بادشاہ بننے کا امکان نہیں۔ اس لئے کہ آئین مانع ہے۔ اسی طرح انبیاء کی رفاقت کی عزت لاکھوں انسانوں کو حاصل ہوسکتی ہے۔ لیکن حضور علیہ السلام کے بعد کوئی فرد نبی نہیں بن سکتا۔ اس لئے کہ آئین قرآن مانع ہے۔
مرزاقادیانی نے آیۂ زیر بحث کو ہرجگہ نامکمل لکھا ہے۔ یا کم ازکم میری نظر سے جس قدر کتابیں گذری ہیں۔ ان میں یہ آیت نامکمل لکھی ہوئی تھی اور آخری حصہ کہیں بھی مذکور نہیں تھا اور وہ یہ ہے۔ ’’وحسن اولئک رفیقاً (النسائ:۶۹)‘‘ {اور یہ لوگ (انبیاء وغیرہ) کتنے عمدہ رفیق ہیں۔}
دیکھا آپ نے کہ اﷲ نے لفظ مع کی کتنی عمدہ تفسیر پیش کی ہے۔ اب اس آخری ٹکڑے کو ساری آیت کے ساتھ ملا کر پڑھئیے۔ ’’خدا ورسول کے پیرو منعم علیہ گروہ یعنی انبیائ، اصدقائ، شہداء اور صلحاء کے ساتھ ہوںگے اور یہ کتنی اچھی رفاقت ہے۔‘‘