کی گئی۔ سو وہ دعاء قبول ہوکر خدائے تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ اس لڑکی کا والد ایک ضروری کام کے لئے ہماری طرف ملتجی ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ نامبردہ (مرزااحمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے چچازاد بھائی غلام حسین نامی کو بیاہی گئی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلاگیا اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین جس کا حق ہمیں بھی پہنچتا ہے۔ نامبردہ (احمد بیگ) کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی۔ اب مرزااحمد بیگ نے چاہا کہ وہ زمین اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرادیں۔ چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے وہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بغیر ہماری رضامندی کے بیکار تھا۔ اس لئے مکتوب الیہ (احمدبیگ) نے بہ تمام عجزوانکساری ہماری طرف رجوع کیا۔ تاکہ ہم راضی ہوکر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں اور قریب تھا کہ ہم دستخط کر دیتے۔ لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے۔ جناب الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہئے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ (احمدی بیگ) کو دیا گیا۔ پھر احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیاگیا۔ وہ استخارہ کیا تھا۔ گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آپہنچا۔ جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔
اس خدائے مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (مرزااحمد بیگ) کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک ومروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی اس دختر کا والد تین سال تک فوت ہو جائے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج اوّل ص۱۵۷،۱۵۸) لیکن مرزااحمد بیگ اس پر بھی نکاح کے لئے آمادہ نہ ہوا اور اپنی لڑکی کی نسبت ایک اور جگہ کر دی اور نکاح کی تاریخ بھی مقرر ہوگئی۔ اس پر مرزاقادیانی نے ۲۰؍مئی ۱۸۹۱ء کو اپنی بہو (فضل احمد کی بیوی) کے والد مرزا علی شیر بیگ کو ایک خط لکھا کہ: ’’میں نے سنا ہے کہ عید کی دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور آپ کے گھر کے لوگ اس مشورہ میں ساتھ ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں۔ میرے کیا دین اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اﷲ اور رسول کے دین کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے۔ کیا میں چوہڑا یا چمار تھا جو مجھ کو لڑکی دینا عار یا ننگ تھی۔ (میں نے آپ کی بیوی یعنی مرزااحمد بیگ کی بہن کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو اس نکاح سے روک دیں) ورنہ میرا بیٹا فضل احمد آپ کی لڑکی اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکے گا۔ ایک طرف جب محمدی