گئے۔ کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں پھینک دوں تو تم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر سرعت کے ساتھ واپس لوٹ آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی واپس لوٹ آئے اور کسی نے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘
آپ نے غور فرمایا کہ اپنے آپ کو خدا کا رسول کہنے والا خدا کی طرف سے دی گئی پیش گوئی کے پورا کرنے کے لئے کیا کیا جتن کر رہا ہے؟ لیکن افسوس کہ یہ پیش گوئی اس پر بھی پوری نہ ہوئی اور عبداﷲ آتھم بدستور زندہ رہا۔ اس کی شہادت خود مرزاقادیانی کے متبع ماسٹر قادر بخش نے ان الفاظ میں دی۔ ’’میں نے امرتسر جاکر عبداﷲ آتھم کو خود دیکھا۔ عیسائی اسے گاڑی میں بٹھائے بڑی دھوم دھام سے بازاروں میں لئے پھرتے ہیں۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۲۳ئ)
۲… مولوی ثناء اﷲ مرحوم عمر بھر مرزاقادیانی کے ساتھ مناظرے کرتے رہے۔ وہ فاتح قادیان کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کے متعلق مرزقادیانی نے اپنے اشتہار مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۷ء میں مولوی ثناء اﷲ امرتسری کو مخاطب کرنے کے لئے لکھا: ’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچے میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجاؤں گا کہ جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی ہی میں ناکام ہلاک ہو جاتا ہے… (اس کے برعکس) وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اس کے بعد ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو اخبار بدر قادیان میں مرزاقادیانی کی ڈائری کے الفاظ شائع ہوئے کہ: ’’ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘
اس کے بعد ہوا یہ کہ مرزاقادیانی کا مئی ۱۹۰۸ء میں انتقال ہوگیا اور مولوی ثناء اﷲ تشکیل پاکستان کے بعد تک بخیر وخوبی زندہ وسلامت رہے۔ (ان کی وفات غالباً ۱۹۴۸ء میں ہوئی تھی)