مرزاقادیانی نے اپنی پیش گوئی میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ وبا ان کے منکرین پر آئے گی۔ ان کے متبعین پر نہیں۔ لیکن جب طاعون نے ان کے متبعین کو بھی نہ چھوڑا اور اس پر مخالفین نے اعتراض کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ: ’’ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کا طاعون سے فوت ہونا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ کے بعض صحابہ لڑائیوں میں شہید ہوتے تھے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱، خزائن ج۲۲ ص۵۶۸)
اور اس کے بعد یہ بھی کہا: ’’اگر خدانخواستہ کوئی شخض ہماری جماعت سے اس مرض سے وفات پاجائے تو گو وہ ذلت کی موت ہوئی۔لیکن ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہم نے خود اشتہار دے رکھا ہے کہ اﷲتعالیٰ کا ہماری جماعت سے وعدہ ہے کہ وہ متقی کو اس سے بچائے گا۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ حصہ ہفتم ص۴۹۲)
’’اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص طاعون سے مرتا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ فی الحقیقت جماعت سے الگ تھا۔‘‘ (ملفوظات حصہ ششم ص۳۵۸)
ان اقتباسات سے واضح ہے کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ یہ تھا کہ جو لوگ فی الحقیقت ان کی جماعت میں داخل ہیں اور متقی ہیں وہ اس عذاب سے محفوظ رہیںگے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے خود اپنے گھر کے متعلق کہا کہ: ’’اﷲ جل شانہ نے ان لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیواری کے اندر ہوںگے۔ حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۷۶، خزائن ج۱۹ ص۸۶)
لیکن خدا کے اس وعدہ اور یقین دہانی کے باوجود مرزاقادیانی کی کیفیت یہ تھی کہ وہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جاکر ڈالتے تھے۔ بعض اوقات گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تاکہ ضرررساں جراثیم مر جاویں۔ آپ نے ایک بہت بڑی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی۔ جس میں کوئلہ ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا۔ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۵۹)
علاوہ ازیں مرزاقادیانی اس وبا سے بچنے کے لئے قصبہ سے باہر باغ میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے طاعون کے علاوہ زلزلہ کی بھی پیش گوئی کی تھی اور باغ میں منتقل ہوجانے کی دوسری وجہ زلزلہ سے بچنے کی حفاظتی تدبیر بھی تھی۔ یعنی خود ہی دعائیں مانگ مانگ کر ان تباہیوں کو بلاتے تھے اور پھر ان سے بچنے کے لئے اس قسم کی تدابیر بھی اختیار کرتے تھے۔ یہ اسی قسم کی تدبیریں تھیں۔ جنہیں ایک کافر بھی اختیار کر لے تو اسی قسم کے نتائج مرتب ہوجائیں۔