لیکن مرزاقادیانی فراموش کر گئے کہ یہودیوں کے ہاں حضرت مسیح علیہ السلام گردن زدنی تھے اور ہمارے ہاں وہ ایک اولوالعزم رسول ہیں۔ کیا ایک مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ وہ یہودیوں کا ہم آہنگ ہوکر ایک جلیل المرتبت پیغمبر کے خلاف زبان کھولے۔ یہودی تو ہمارے حضور پرنورﷺ کو بھی گالیاں دیتے ہیں۔ کیا ہم اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں؟
’’جس طرح یہود محض تعصب سے حضرت عیسیٰ اور ان کی انجیل پہ حملے کرتے ہیں۔ اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرتﷺ پہ کرتے ہیں۔ عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس طریق بد میں یہودیوں کی پیروی کرتے۔‘‘ (مقدمۂ چشمہ مسیحی ص ج، خزائن ج۲۰ ص۳۳۷)
اگر عیسائیوں کے لئے یہود کے طریق بد کی پیروی نامناسب تھی تومرزاقادیانی کے لئے اسی پیروی کا جواز کہاں سے نکل آیا؟ ہاں تو ہم مرزاقادیانی کی تحریرات کی روشنی میں حضرت مسیح کے اخلاق وخواص کا جائزہ لے رہے تھے۔ اقتباسات بالا کاملخص یہ نکلا۔
۱…
کہ حضرت مسیح کا علم مرزاقادیانی سے کم تھا۔
۲…
کہ خدائی تائید مرزاقادیانی کے ساتھ زیادہ تھی۔
۳…
کہ مرزاقادیانی اپنی تمام شان میں حضرت مسیح سے بہت بڑھ کر تھے۔
۴…
کہ مسیح علیہ السلام شرابی تھے۔
۵…
کہ وہ بدزبان تھے۔
۶…
کہ وہ نہایت غیر مہذب الفاظ استعمال کرتے تھے۔
۷…
کہ وہ مسمریزم جیسے مکروہ اور قابل نفرت عمل میں کمال رکھتے تھے۔
۸…
کہ وہ روحانی تاثیروں میں ضعیف نکمے اور قریب قریب ناکام تھے۔
۹…
کہ اس درماندہ انسان کی پیش گوئیاں بے معنی تھیں۔
۱۰…
کہ اس کی نبوت کے ابطال پر کئی دلائل قائم تھے۔
۱۱…کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔
۱۲…
کہ ان کی معجزانہ پیدائش ایسی ہی تھی۔ جیسے برسات میں کیڑے پیدا ہو جائیں۔
۱۳…
کہ وہ رجولیت سے محروم تھے اور ہجڑہ ہونا کوئی صفت نہیں۔
۱۴…
کہ گندی گالیوں کی وجہ سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کر لیا تھا۔
۱۵…
کہ آپ کی تین دادیاں اور نانیاں زناکارہ تھیں۔