اور مطلب اس سے یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ کی مہر سے آپ کے امتی نبی بن سکتے ہیں۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ عربوں کے ہاں خاتم اس مہر یانشان کو کہتے ہیں جو کسی بوتل وغیرہ کو لاکھ سے بند کر کے اس لاکھ کے اوپر لگاتے ہیں۔ اسے انگریزی زبان میں (Seal) کر دینا کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ختم کا لفظ انہی معنوں میں آیا ہے۔ خود مرزابشیر الدین محمود قادیانی اپنی تفسیر میں قرآنی آیت ’’ختم اﷲ علیٰ قلوبہم وعلیٰ سمعہم (البقرہ:۸)‘‘ کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ’’اﷲ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کر دی ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۶)
’’یسقون من رحیق مختوم (مطففین:۲۵)‘‘ کے معنی لکھتے ہیں۔ ’’انہیں خالص سربمہر شراب پلائی جائے گی۔‘‘ اور ’’ختمہ مسک (مطففین:۲۶)‘‘ کے معنی لکھتے ہیں۔ اس کے آخر میں مشک ہوگا۔ (تفسیر صغیر ص۸۱۱)
جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ ہمیں اس بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں جب کہ خود مرزاقادیانی نے (ان اقتباسات کی رو سے جو پہلے درج کئے جاچکے ہیں) خاتم النبیین کے معنی وہ نبی کئے ہیں۔ جس پر سلسلۂ نبوت ختم ہوگیا۔ وہ آخری نبی جس کے بعد وحی منقطع ہوگئی۔ باقی رہا یہ کہ رسول اﷲﷺ کے اتباع سے کسی امتی کو نبوت مل سکتی ہے تو یہ دعویٰ نبوت کی حقیقت سے بیخبری کی دلیل ہے۔ (جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں) نبوت، موہبت خداوندی ہے جو کسی انسان کو کسب وہنر، محنت وکاوش، کسی کے اتباع یا اطاعت سے نہیں مل سکتی۔ محنت وکاوش سے نبوت حاصل ہونا تو ایک طرف جس برگزیدہ ہستی کو اس منصب جلیلہ اور موہبت کبریٰ کے لئے منتخب کیا جاتا تھا۔ اسے (نبوت حاصل ہونے سے) ایک ثانیہ پہلے تک اس کا علم وادراک تک نہیں ہوتا تھا کہ اسے اس منصب کے لئے منتخب کیا جارہا ہے۔ اسی سلسلہ میں ایک بڑی دلچسپ بات یاد آگئی۔ احمدی حضرات (مرزاقادیانی کے اس دعویٰ کی تائید میں کہ انہیں اتباع محمدیہ سے نبوت حاصل ہوگئی ہے) یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ:
۱… سورۂ فاتحہ میں مسلمانوں کو یہ دعاء سکھائی گئی ہے کہ: ’’اہدنا الصراط المستقیم۰ صراط الذین انعمت علیہم‘‘ دکھا ہم کو سیدھی راہ۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تونے اپنا انعام کیا۔
۲… سورہ النساء میں ’’انعمت علیہم‘‘ کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ: ’’الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین (النسائ:۶۹)‘‘ یعنی منعم علیہ حضرات میں انبیائ، صدیق، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ خدا