خدا نے مسلمانوں کو نبی بن جانے کی بھی دعاء سکھائی ہے۔ (ہم ان حضرات کی اس مغالطہ آفرینی کا تجزیہ بعد میں کریںگے۔ اس مقام پر صرف اتنا سمجھ لیجئے کہ) احمدیوں کی جماعت لاہوری کے امام مولانا محمد علی قادیانی اپنی تفسیر بیان القرآن میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں نبی کا لفظ آجانے سے بعض لوگوں کو یہ ٹھوکر لگی ہے کہ خود مقام نبوت بھی اس دعاء کے ذریعے سے مل سکتا ہے اور گویا ہر مسلمان ہر روز باربار مقام نبوت کو ہی اس دعاء کے ذریعہ طلب کرتا ہے۔ یہ ایک اصولی غلطی ہے۔ اس لئے کہ نبوت محض موہبت ہے اور نبوت میں انسان کی جدوجہد اور اس کی سعی کو کوئی دخل نہیں۔ ایک وہ چیزیں ہیں جو موہبت سے ملتی ہیں اور ایک وہ جو انسان کی جدوجہد سے ملتی ہیں۔ نبوت اوّل میں سے ہے۔‘‘ (بیان القرآن ص۵)
لیکن یہ لکھتے وقت مولانا محمد علی قادیانی یہ بھول گئے کہ یہ ٹھوکر بعض لوگوں ہی کو نہیں لگی خود مرزاقادیانی کو بھی لگی تھی۔ جو اتباع محمدی سے مقام نبوت تک پہنچ جانے کے مدعی تھے۔ چنانچہ انہوں نے سورۂ فاتحہ کی مندرجہ بالا آیت کے سلسلہ میں لکھا تھا۔
’’افسوس کہ حال کے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی۔ وہ ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں۔ جس سے آنحضرتﷺ کے نفس پاک میں اضافہ اور تکمیل نفسوس کے لئے کوئی قوت نہ تھی اور صرف خشک شریعت سکھانے آئے تھے۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ اس امت کو دعاء سکھاتا ہے۔ ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم‘‘ پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے اس کو کچھ حصہ نہیں تو پھر یہ دعاء کیوں سکھائی گئی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۰، خزائن ج۲۲ ص۱۰۴)
بہرحال بات یوں چلی تھی کہ مرزاقادیانی نے:
۱…
پہلے صرف ولایت (کشف والہام) کا دعویٰ کیا۔
۲…
پھر اس کے لئے نبوت کا لفظ استعمال کیا۔
۳…
جب اس کی مخالفت ہوئی کہ اس سے عقیدۂ ختم نبوت پر زد پڑتی ہے تو انہوں نے باصرار وتکرار کہا کہ ختم نبوت پر ان کا عقیدہ ہے۔ وہ حضورﷺ کو خاتم النبیین (آخری نبی) مانتے ہیں اور مدعی نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔
۴…
جب اس سے مخالفت کا طوفان تھما تو آپ نے خاتم النبیین کو نئے معنی پہنائے اور کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اب نبوت، رسول اﷲﷺ کی مہر تصدیق سے حاصل ہوسکتی ہے۔ براہ راست نہیں اور مجھے اس طرح نبوت حاصل ہوئی ہے۔