اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح بن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۷،۱۸)
’’خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راست بازوں پہ زبان درازی کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی شخص حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راست باز پر بدزبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ (ضمیمہ نزول المسیح ص۳۸، خزائن ج۱۹ ص۱۴۹، ملحق اعجاز احمدی)
حضرت مسیح کے متعلق اس تلخ زبانی کی ایک وجہ مرزاقادیانی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ میرا روئے سخن قرآن والے عیسیٰ کی طرف نہیں۔ بلکہ انجیل والے یسوع کی طرف ہے۔ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ آخر قرآن میں بھی تو انجیل والے مسیح یا عیسیٰ کا ذکر ہے۔ ’’واٰتیناہ الانجیل فیہ ہدی ونور (المائدہ:۴۶)‘‘ {ہم نے حضرت مسیح کو انجیل دی۔ جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔}
یہ دونوں الگ الگ کیسے ہوئے؟ کیا انجیل میں کہیں لکھا ہے کہ مسیح شراب پیتے، جھوٹ بولتے، مداریوں کے کھیل دکھاتے اور فاحشہ عورتوں کی نسل سے تھے؟ کہیں نہیں تو پھر آپ نے حضرت مسیح کی یہ انوکھی سیرت کہاں سے حاصل کی ہے؟ جب قرآن وانجیل ہر دو میں حضرت مسیح کی نہایت بلند، مطہر اور مقدس تصویر ملتی ہے تو پھر انجیل والے مسیح کو شرابی اور جھوٹا کہنا کیا معنی؟ قرآن کا عیسیٰ انجیل کے یسوع سے کوئی الگ ہستی نہیں تھا۔ ’’ایک دو ماہ بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا۔ وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۲۷، خزائن ج۲۰ ص۳۵۶)
بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر فرمایا: ’’آپ (حضورﷺ) کا نام احمد تھا۔ یعنی خدا کا سچا پرستار اور اس کے فضل ورحم کا شکرگذار اور یہ نام اپنی حقیقت کے رو سے یسوع کا مترادف ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۹۷، خزائن ج۱۷ ص۲۵۶)
مرزاقادیانی اپنے تمام دور نبوت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف لکھتے رہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ بھی فرماتے رہے کہ میرا روئے سخن انجیل والے عیسیٰ کی طرف ہے۔ آخر ۱۹۰۵ء میں اس راز سے یوں پردہ اٹھایا۔ ’’ہماری قلم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے وہ الزامی جواب کے رنگ میں ہے اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کئے ہیں۔‘‘ (مقدمۂ چشمہ مسیحی ص ب حاشیہ، خزائن ج۲۰ ص۳۳۶)