ان تمام وضاحتوں اور صراحتوں کے بعد یہ اعلان عظیم کردیا کہ: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (مائدہ:۳)‘‘ {اس دور میں ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نوازشات کا اتمام کر دیا اور تمہارے لئے اسلام بطور ضابطۂ زندگی پسند کرلیا۔}
اس آیت میں اگر تکمیل دین سے مراد اس زمانے کے لئے مسلمانوں کا دینی غلبہ بھی لیا جائے تو بھی قرآن مجید نے اس کی وضاحت کر دی تھی کہ یہ نظام زندگی دنیا کے باقی تمام نظامہائے حیات پر غالب آکر رہے گا۔
’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علیٰ الدین کلہ ولو کرہ المشرکون (التوبہ:۳۳)‘‘ {خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ضابطۂ ہدایت اور مبنی برحق نظام حیات کے ساتھ بھیجا تاکہ یہ نظام دیگر تمام نظامہائے عالم پر غالب آجائے۔ خواہ یہ بات ان لوگوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گذرے جو دین خداوندی میں اوروں کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔}
میں آپ کی توجہ ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ خدا نے اپنی کتاب (قرآن کریم) کے متعلق واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ ہر طرح سے مکمل ہے۔ غیر متبدل ہے۔ محفوظ ہے۔ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے ضابطۂ ہدایت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد ختم نبوت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے۔ جب کتاب ایسی ہے جس کے بعد قیامت تک کسی اور کتاب کی ضرورت نہیں تو اس کتاب کے لانے والے نبیؐ کے بعد کسی اور نبی کی بھی ضرورت نہیں۔ نبی تو کتاب لے کر آتا ہے۔ جب کوئی کتاب ہی نہیں آنی تو نبی کیا کرنے آئے گا۔ کتاب دائمی اس لئے اس کتاب کے لانے والے نبی کی نبوت بھی دائمی۔ کتاب کے بعد مزید کتابوں کے نزول کا سلسلۂ ختم اس لئے اس نبیؐ کے بعد نبوت کا سلسلہ بھی ختم۔ اس کے بعد سوچئے کہ اﷲتعالیٰ نے جو نبی اکرم کو خاتم النبیینﷺ کہا۔ تو اس کے صحیح قرآنی مفہوم کے سمجھنے میں کوئی دشواری ہوسکتی ہے۔ قرآن کریم کے خاتم الکتب (آسمانی کتابوں کے سلسلہ کی آخری کتاب) تسلیم کر لینے کے بعد نبی اکرمؐ کے خاتم الانبیاء (سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی) ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ نے جو کچھ قرآن کریم کے متعلق کہا ہے۔ اس کے بعد اگر حضورﷺ کے متعلق خاتم النبیین ہونے کا اعلان نہ بھی کیا جاتا تو بھی حضورﷺ کے آخری نبی ہونے میں دوآراء نہ ہوسکتیں۔ ان حقائق کی موجودگی میں سوچئے کہ