حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے حواریوں کو ملی تھی۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ وہ چیز جسے تم کسی طرف پہنچا دو اور اسے اس کا علم ہو جائے۔ وحی کہلاتی ہے۔ خواہ اسے پہنچانے کی کیفیت کچھ ہی ہو۔ مخفی طور پر یا ویسے ہی۔
سورۂ حم سجدہ میں ہے۔ ’’واوحیٰ فی کل سماء امرہا (حم سجدہ:۱۲)‘‘ اس نے ہر سماء میں اس کا امروحی کر دیا۔ اس میں امروحی (یا وحی امر) کے معنی مامور کرنے کے لئے ہیں۔ یعنی وہ قانون خداوندی جس کی رو سے خارجی کائنات کی ہر شے اپنے اپنے فرائض مفوضہ کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔ اسی کو سورۂ النور میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ’’کل قد علم صلاتہ وسبیحہ (النور:۴۱)‘‘ کائنات کی ہر شے جانتی ہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں اور وہ مقصد کیا ہے۔ جس کے حصول کے لئے انہیں سرگرم عمل رہنا ہے۔ یہی وہ وحی ہے جو ان میں جاری وساری ہے۔ یعنی امر خداوندی، خدا کا قانون۔ اس کے متعلق سورۂ زلزال میں ہے۔ ’’بان ربک اوحیٰ لہا (زلزال:۵)‘‘ یعنی اس مقصد کے لئے خدا نے زمین کی طرف وحی کی ہے۔ زمین کو حکم دے رکھا ہے۔ زمین کے متعلق خدا کا قانون یہ ہے۔ اسی طرح سورۂ النحل میں ہے۔ ’’واوحی ربک الیٰ النحل (النحل:۶۸)‘‘ شہد کی مکھی کی طرف خدا نے وحی کر رکھی ہے۔ یعنی اس کے لئے خدا کا قانون یہ ہے کہ وہ یہ کچھ کرے۔
۵… ’’اوحی الیہ‘‘ کسی کو اپنا پیغامبریا ایلچی بنا کر بھیجنا۔ چنانچہ اوحی الرجل کے معنی ہیں۔ اس نے اپنے معتمد پیامی کو ایلچی بناکر بھیجا۔ (بحوالہ تاج العروس) ابن الانباری نے کہا ہے کہ ایحاء کے اصلی معنی کسی کا دوسرے کے ساتھ علیحدگی میں خفیہ باتیں کرنا ہیں۔ اس لئے قرآن میں حضرات انبیاء کرام کے مخالفین کے متعلق ہے۔ ’’یوحی بعضہم الیٰ بعض (انعام:۱۱۲)‘‘ اس کے معنی خفیہ سازشوں کے ہیں۔ اخفاء کے اعتبار سے اس کے معنی ہوتے ہیں۔ کسی بات کو دل میں ڈال دینا چنانچہ ’’اوحت نفسہ‘‘ کے معنی ہیں۔ اس کے دل میں خوف پیدا ہوگیا۔ اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوگیا۔ (بحوالہ تاج العروس)
۶… الوحی کے معنی قابل اعتماد راستے کے بھی ہیں۔ (لطائف اللغتہ) یہ ہیں اس لفظ (یا مادہ) کے لغوی معنی انہیں اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے۔ کیونکہ آگے چل کر ان سے بڑے اہم نکتے پیدا ہوںگے۔
لیکن اس لفظ کے اصطلاحی معنی ہیں۔ وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ (منتخب) فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا تھا۔ اسے پھر سمجھ لیجئے کہ قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی