۵… قول فیصل ہے۔ یونہی مذاق نہیں۔ ’’انہ لقول فصل وما ہو بالہزل (طارق:۱۳،۱۴)‘‘
۶… خدا کی طرف سے دیئے جانے والے تمام قوانین اس میں مکمل ہوگئے ہیں۔ ’’وتمت کلمت ربک صدقاً وعدلاً (انعام:۱۱۵)‘‘ {تیرے خدا کی باتیں اس کے قوانین، صدق وعدل کے ساتھ مکمل ہوگئے۔}
۷… یہ مکمل بھی ہے اور غیر متبدل بھی۔ ’’لا تبدیل لکملت اﷲ (یونس:۶۴)‘‘ {ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔} دیگر مقامات میں ہے۔ ’’لا مبدل لکلمتہ (انعام:۱۱۵)‘‘ {انہیں کوئی بدل نہیں سکتا۔}
حتیٰ کہ خود رسول اﷲﷺ بھی ان میں اپنی طرف سے کسی تبدیلی کے مجاز نہیں تھے۔
۸… مکمل غیر متبدل اور اس کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے محفوظ۔ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر:۹)‘‘ {ہم نے اس ضابطۂ قوانین کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں۔}
۹… کسی خاص زمانے یا خاص قوم کے لئے رہنمائی نہیں۔ تمام اقوام عالم کے لئے ضابطۂ ہدایت ’’ان ہو الا ذکر للعلمین (تکویر:۲۷)‘‘ {یہ تمام اقوام کے لئے ضابطۂ ہدایت ہے۔}
۱۰… تمام نوع انسان کے دکھوں کی دوا۔ ’’یایہا الناس قد جاء تکم موعظۃ من ربکم وشفاء لما فی الصدور (یونس:۵۷)‘‘ اے نوع انسان! تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے موعظت آگئی۔ یعنی وہ نسخۂ کیمیا جس میں تمہارے نفسیاتی امراض کا علاج موجود ہے۔
واضح رہے کہ جب یہ کہاگیا کہ یہ کتاب مفصل اور مکمل ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں تمام احکام اور ان کی جزئیات تک بھی دے دی گئیں ہیں۔ قرآن کریم کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں احکام بہت کم ہیں۔ یعنی وہی جو ہمیشہ کے لئے غیر متبدل رہ سکتے تھے۔ باقی راہنمائی اصول واقدار کی شکل میں دی گئی ہے۔ ان اصول و اقدار پر عمل درآمد کس طرح کیا جائے گا۔ اسے ہر زمانہ میں قرآنی نظام حکومت (یعنی اسلامی مملکت جو قرآن کے مطابق قائم ہوگی) باہمی مشورہ سے خود متعین کرے گا۔ یہ طریق عمل (یا جزئیات) زمانہ کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق بدلتا جائے گا۔ لیکن اصول واقدار اپنی جگہ غیر متبدل رہیںگے۔ ثبات وتغیر کے اس امتزاج سے یہ