ہوتی کہ باقی چارہ کون لے جاسکتا ہے۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ جو لوگ زیادہ چالاک اور ہوشیار ہوتے ہیں۔ ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سامان زیست سمیٹ لیں۔ خواہ اس سے باقی ماندہ افراد تلف ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ لیکن ان باقی ماندہ محتاج انسانوں میں بھی تو تحفظ خویش کا تقاضا اسی طرح موجود ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اوّل الذکر افراد کی اس قسم کی کوششوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔ باہمی مفاد کے اس ٹکراؤ سے معاشرہ میں فساد رونما ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تزاحم وتصادم یا فساد وانتشار کا حل عقل انسانی کی رو سے ممکن نہیں۔ اس لئے کہ یہ توپیدا ہی عقل انسانی کا کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہر فرد کی عقل کا فریضہ یا منصب یہ ہے کہ وہ اس فرد متعلقہ کے تحفظ کی تدبیر کرے۔ عقل اپنے فریضہ کو چھوڑ نہیں سکتی۔ وہ مختلف تدبیریں کرتی رہتی ہے۔ اسی بناء پر معاشرہ کے اس فساد کو عقول کی جنگ کہا جاتا ہے۔ ارسطو نے اڑھائی ہزار سال پہلے کہا تھا کہ: ’’ہر عمل جو ارادۃً سرزد ہو۔ بظاہر کتنا ہی مبنی پر عقل کیوں نہ نظر آئے۔ درحقیقت ہمارے مفاد پر مبنی ہوتا ہے اور مفاد کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد جذبات پر ہو۔‘‘
(MYSTICISM BY EUNDERCHILL)
اور اسی حقیقت کو آج ان الفاظ میں دہرایا جاتا ہے کہ: ’’عقل درحقیقت ہماری خواہشات کی لونڈی ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ ہم جن مقاصد کو غیر شعوری طور پر حاصل کرنے کی خواہش کریں۔ ان کے حصول کے لئے ذرائع بہم پہنچا دے اور جو کچھ ہم کرنا چاہیں۔ اس کے جواز کے لئے دلائل تلاش کر کے مہیا کر دے۔‘‘
(JOAD: GUIDE TO MODERN THOUGHTS)
اقبالؒ کے الفاظ میں ؎
عقل خود بیں غافل از بہبود غیر
سود خود بیند نہ بیند سود غیر
ظاہر ہے کہ باہمی مفاد کے ان تصادمات کو حل کرنے کے لئے راہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ راہنمائی (دیگر اشیائے کائنات اور حیوانات کی طرح) انسان کے اندر موجود نہیں اور اب یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ انسانی علم وعقل بھی اس قسم کی راہنمائی مہیا نہیں کر سکتے۔ یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ راہنمائی ملے کہاں سے؟ یہ اس خدا کی طرف سے ہی مل سکتی تھی۔ جس نے راہنمائی دینے کا ذمہ لیا تھا۔ اس نے یہ راہنمائی دی۔ قرآن کریم میں قصہ آدم کی تمثیلی داستان کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ خدا نے آدم (انسانوں) سے کہا کہ تم نے زمین